602e6be53a7b3

ہمارے ہیروز اور ہماری سیاحت

19 سالہ شہروز کاشف پہلے کم عمر ترین کوہ پیما ہیں؛ جنہوں نے گزشتہ دنوں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی ہے۔ افسوس کہ انہیں کوئی بھی سپونسر شپ حاصل نہ تھی۔ ہمارے دوسرے ہیرو سربیز خان ہیں جنہوں  شہروز کاشف کے ایک دن بعد ماؤنٹ ایورسٹ سر کی۔ سربیز خان نے دنیا میں موجود 8000+ میٹرز چوٹیوں میں سات چوٹیاں فتح کر لی ہیں۔ ہمارے ایک ہیرو عبدالجوشی نے بھی گزشتہ دنوں دنیا کی مشکل ترین چوٹی جسے سر کرنا انتہائی دشوار اور جان جوکھم کا کام ہے۔ وہاں ڈیتھ ریٹ بھی سب زیادہ ہے۔ جی ہاں نیپال میں موجود اناپورنا سر کرنا معمولی بات نہیں۔ اور خدا کے کرم سے ہمارے یہ بہترین کوہ پیماہ دنیا بھر میں پاکستان اور سبز ہلالی پرچم لہرا کر ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کیے جا رہے ہیں۔ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ایسے ہیروز کو حکومتی سطح یا میڈیا پر کوئی خاص پزیرائی نہیں ملی۔ جب کہ دوسری طرف مغرب اپنے کوہ پیماؤں کی بہت زیادہ پزیرائی کرتے رہتے ہیں۔ اداروں اور حکومتی سطح پر انہیں زبردست قسم کی فنڈنگ کی جاتی ہے۔ انہیں ایک عالمی سفیر کی حد تک سہولیات دی جاتی ہیں۔ لوگ ان پر خرچہ کرتے ہیں۔ کوئی پیمائی کے جدید ترین اوزار اور ساز وسامان ان کو میسر ہوتے ہیں علاوہ ازیں ان کے کاموں پر الگ سے ڈاکومینٹریز بھی بنتی ہیں۔ وہ لوگ اپنی قوم کو میڈیا اور حکومتی سطح پر بار بار جتلاتے ہیں کہ اپنے ہیروز کو یاد رکھیے۔ لوگ ان سے واقف ہیں۔ آپ مغرب میں جہاں کہیں چلے جائیں ان کے کسی بھی بڑے کوہ پیماء کے متعلق پوچھ لیں ان کی اکثریت اپنے ہیروز سے نہ صرف واقف ہے بلکہ آپ کو وہ اپنے کوہ پیماؤں کے قصے کہانیاں یہاں تک کہ سر کی گئی چوٹیوں کے نام تک گنوا دیں گے۔ دوسری طرف ہمارے ہیروز کے پاس نہ فنڈنگ ہوتی ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کے شایان شان سرپرستی. اپنی جانوں پر کھیل اوسط قسم کے ساز و سامان کے ساتھ یہ دیوانے کبھی ایورسٹ؛ اناپورنا ۔ مانسالو ۔ کے ٹو ۔ نانگا پربت ۔ راکا پوشی ۔ گولڈن پیک ۔ جیسی خطرناک ترین چوٹیوں کو ٹکر دینے کے لیے نکل پڑتے ہیں ۔علی سدپارہ شہید سے پہلے ہماری عوام کو شاید بہت کم علم ہو گا کہ ہمارے ہاں بھی ایسے دلیر پائے جاتے ہیں ۔ یقین کی جیئے اگر علی سدپارہ کےٹو مہم جوئی کے دوران شہید نہ ہوتے تو آج بھی لوگوں کی اکثریت کو ہمارے ہیرو کا نام تک معلوم نہ ہوتا ۔ہمارے ہاں لوگوں میں عدم معلومات شاید اس لیے بھی ہے کہ ہم ٹوور ازم اور ٹریلولنگ میں بہت ماٹھے لوگ ہیں ۔ ہمیں سویٹزز لینڈ امریکہ کینیڈا فرانس اٹلی سپین جرمنی آئس لینڈ ارجنٹینا چلی وغیرہ کی سیر و سیاحت کے متعلق کچھ نہ کچھ علم ہے مگر ہم اپنے پاکستان کے متعلق معلومات ہی نہیں رکھتے ۔ جب کہ یقین کی جیئے پاکستان کے مقابلہ میں قدرتی حسن ؛ بلند و بالا پہاڑ ۔ جھیلیں ؛ جھرنے ؛ میڈوز ؛ صحرا اور ساحل سمندر دنیا سے کہیں بہتر ہیں ۔ اکثریت کو یہ تک نہیں معلوم کہ پاکستان میں کئی سمندری جزیرے بھی ہیں ۔خیر تو بات کر رہا تھا کوہ پیمائی کی تو ایسا ہے کہ میں نے اوپر محض تین چار ناموں کا ذکر کیا ہے ۔ لیکن وادی شمشال جو کہ گلگت بلتستان صوبہ میں واقع ہے ۔ اسی ایک وادی میں درجنوں کوہ پیماء موجود ہیں جو آٹھ ہزار میٹر کی کئی چوٹیاں سر کر چکے ہیں ۔ لیکن وہ نامعلومی میں گم ہیں ۔ وجہ حکومتی عدم دلچسبی اور میڈیا کی بیوفائی ۔ افسوس کہ ان کے کاموں پر ڈاکومینٹریز نہ بن سکیں کبھی ۔ ان کو غیر لوگوں نے تو سراہا مگر ہم نے انہیں کبھی جانا ہی نہیں ۔  ایک طرف نیپالی کوہ پیماء دنیا کے بہترین کوہ پیماء مانے جاتے ہیں وجہ کہ وہاں ہر خاص و عام کو معلومات ہیں ۔ اب بات کروں ہمارے کوہ پیماؤں کی تو یقینا وہ ان نیپالی کوہ پیماؤں سے تکنیک سکلز اور بہادری میں نہ صرف بہت آگے بلکہ بہت بہتر ہیں ۔ اگر کہیں کمی ہے تو وہ سرکاری پشت پناہی اور عوامی عدم دلچسبی کی اور ہمارے ہاں سیاحت کے متعلق شعور اور آگہی کی ۔ ناجانے اس بات کی حکومت کو کب سمجھ آئے گی کہ ہم بھی اس میدان میں بہت آگے جا سکتے ہیں ہاں مگر کام عملی طور پر ہوں ۔ ملک کے حالات اب ٹھیک ہیں ۔ تقریبا ہم دہشتگردی ختم کر چکے ہمیں سیاحت پر توجہ دینا ہو گی ۔ اگر اسے انڈسٹری بنایا جائے لوگوں کو سہولیات دی جائیں ۔ سڑکیں تعمیر کی جائیں خوراک اور مناسب رہائش کا بندوبست کیا جائے تو ہم اربوں ڈالر کما سکتے اور ساتھ میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کا بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ ہمیں اب صرف باتوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ عملی طور پر اور ہنگامی بنیادوں پر اس طرف دھیان دینا ہو گا ۔ ہمیں دنیا کے مختلف ممالک کے کوہ پیماؤں کو دعوت دینا ہو گی ۔ زیادہ نہیں تو ہم ہر سال سیزن میں ہزار سے ڈیڑھ ہزار کوہ پیماء بلا سکتے ۔ ہمارے پاس دنیا میں موجود 8000+میٹر کی چودہ چوٹیوں میں پانچ چوٹیاں موجود ہیں ۔ کے ٹو ۔ براڈ پیک ۔ گیش برم 1 ؛ گیش برم 2 اور نانگا پربت جسے دنیا کلر ماونٹین کے نام سے بھی جانتی ہے ۔ اگر ہم ابتدائی طور پر ان پانچ چوٹیوں کی توجہ دنیا کو دلاتے ہیں اور دنیا بھر سے کوہ پیماؤں کو بلاتے ہیں تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہو گا ۔ ایک تو ہمارا دنیا کی نظر میں اچھا امپیکٹ جائے گا ۔ دوسرا یہ ہو گا کہ غیر ملکی سیاح پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آنا شروع ہو جائیں گے ۔ آپ دیکھ لیں کہ نیپال بھوٹان اور تبت  کا سارا دارومدار اور معیشت سیاحت پر ہی منحصر ہے ۔ نیپال مانسالو ؛ انا پورنا اور ایورسٹ کے ذریعے دنیا کو کیسے کیپچر کر رہا ہے ۔ ہر سال نیپال میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں ۔ جب کہ ہمارے ہاں تو نیپال سے بہت بہتر لینڈ سکیپس موجود ہیں ۔ نیپال ہمالیہ میں واقع ہے اور ہمارے ہاں تو ہندوکش ہمالیہ قراقرم کوہ سفید کھیرتھر کوہ سلمان وغیرہ جیسے پہاڑی سلسلے موجود ہیں ۔ وہیں نیلم ویلی ۔ کاغان ناران ۔ سوات ۔ چترال ۔ وزیرستان ۔ مری ۔ فورٹ منرو ۔ ہنگول نیشنل پارک ۔ دیوسائی نیشنل پارک ۔ لال سہانرا نیشنل پارک ۔ شندور پولو فیسٹیول ۔  علاوہ ازیں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے نشانات اور مقدس مقامات بھی موجود ہیں ۔ صوفی ازم ۔ ہندی متھ ۔ سکھ مت ۔ بدھ مت ۔ کیلاش ۔ پارسیت قدیم موہنجوداڑو ؛ ہڑپہ ؛ مہرگڑھ ؛ پتن منارہ ۔ مکلی قبرستان ۔ رانی کوٹ قلعہ ۔ قلع روہتاس ۔ مقبرہ جہانگیر ۔ بادشاہی مسجد ۔ شاہی قلعہ ۔ دراوڑ فورٹ ۔ موج گڑھ فورٹ ۔ مروٹ فورٹ ۔ اور نوابوں کے شاندار اور عالیشان بہاول پور کے محلات ۔ ریگستانی صحرہ چولستان تھر تھل ۔ ساحل سمندر گوادر پسنی ٹھٹھہ اور کراچی ۔ اور پاکستان کے جزیرے  وغیرہ ۔ کیا کمی ہے یہاں ۔ صرف یہی کہ ہم باتوں کے شیر ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ۔ افسوس کہ لوگ کیا؛ ہم خوذ اپنے ملک کے متعلق کچھ نہیں جانتے ۔

بلاگر: محمدزبیرمظہرپنوار

ادارہ مشرق ٹی وی کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔