2 92

مشرقیات

عرض کیا گیا کچھ میوہ آپ کی خدمت میں تحفتہً آیاہے!میوہ کیا تھا’ معلوم ہوتا تھا تازہ پھلوں کی دکان لگی ہے۔ سیب’ انار’ انگور جانے کیاکیاکچھ! پھل بھی اعلیٰ قسم کے تھے۔ ایسے خوش رنگ اور ایسے خوشبودار کہ دور ہی سے انہیں ایک نظر دیکھ کر دل للچانے لگے۔ اتفاق سے تحفہ ایک ایسے گھر میں آیا تھا جہاں بڑی مدت سے پھل نہ آئے تھے اس کنبے میں بڑے بھی تھے اور بچے بھی۔
کبھی اس گھر میں اس کثرت سے پھل آتے تھے کہ ہر وقت کا دسترخوان ان سے سجا رہتا تھا۔ اللہ کی شان کہ اب اس گھر کے بچے موسمی پھلوں کے ایک ایک دانے کے لئے ترستے تھے۔
بیوی بچوں کی وجہ سے آدمی اکثر اپنے نفس پر قابو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ بچے کھائیں بیوی کھائے جس طرح بھی آئے مال لے لو بچے پہنیں گے اوڑھیں گے بیوی اپنی سہیلیوں میںناک اونچی کرکے چلے گی۔آخر یہ ٹھاٹھ ہوتے کیسے ہیں ۔ یہ روپیہ آتا کہاں سے ہے ۔ یہ باتیں راز کی ہیں ، جب دلوں سے اللہ کا ڈر اٹھ جاتا ہے تو آدمی پھر طرح طرح سے روپیہ بٹورتا ہے اور سوچتا ہے یہ سب اسی کی ذہانت کی کمائی ہے ۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ اپنے عہدے اور مقام سے فائدہ اٹھا کر حکومت کے خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ دہرے عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص مملکت کی کسی خدمت پر ہو چاہے چھوٹی یا بڑی وہ عوام یا اہل معاملہ سے کوئی تحفہ وصول نہیں کرسکتا۔
قطعی نہیں یہ حرام اور ناجائز ہے طبرانی میں ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے۔وہ پھل پھلاری کا تحفہ ‘ بڑا زبردست تحفہ بھیجاگیا تھا وہ جس اللہ کے نیک بندے کے پاس آیا تھا اس نے اس تحفے کو واپس کر دیا تو کسی نے کہا’ یہ آپ کیاکرتے ہیں؟ یہ تحفہ تو آپ کے عزیزوں نے بھیجا ہے ‘ کہا۔ میں جانتا ہوں۔ کہا گیا۔ تحفہ واپس نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تحفہ واپس نہیں کرتے تھے ۔ جواب ملا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تحفے اخلاص سے آتے تھے تمہیں معلوم ہے یہ تحفہ میرے پاس کس لئے آیا ہے؟ اس لئے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں صاحب اقتدار ہوں’ میں نے ان کا جو مال و اسباب بیت المال میں داخل کرادیا ہے یہ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں واپس مل جائے حالانکہ یہ مال و اسباب انہوں نے غصب کیا ہے۔ مجھے پر چانے کے لئے تحفے کا سہارا لیا گیا ہے۔ یہ تحفہ نہیں رشوت ہے۔ بولو! کیا میں اس رشوت کو قبول کرلوں؟مشورہ دینے والا سوال سن کر خاموش ہوگیا۔یہ سوال پوچھنے والے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز جو امیرالمومنین تھے اور ایسے کہ امام سفیان ثوری انہیں پانچواں خلیفہ راشد کہتے تھے۔
(روشنی)

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام