shaksiyat parasti

شخصیت پرستی اور ہمارا معاشرہ

۔شخصیت پرستی حضرت انسان کی جاتی ہے اور اس سے مراد ہر گز ہر گز کسی انسان کی پرستش مراد نہیں ہے۔بلکہ عرف عام میں اس سے جو مراد لیا جاتا ہے اس سے سب واقف ہیں۔
شخصیت پرستی ایک ناسور ہے۔جس معاشرے میں موجود رہے وہاں صحیح غلط کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔کیونکہ صحیح و غلط کے جو تسلیم شدہ پیمانے ہوتے ہیں وہ پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔اور اپنی اپنی من پسند شخصیتوں کے افکار، اور عادات واطوار کو معیار بنایا جاتا ہے۔اب اگر تسلیم شدہ کسوٹیاں من پسند شخصیتوں کے معیار کے مطابق نہ ہو۔تو انکو رد کیا جاتا ہے یا تاویلات کا سہارا لیا جاتا ہے۔مگر کسی بھی صورت من پسند شخصیت کے معیار کو رد کر نے کے لئے  تیار نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر ہمارے سیاسی کلچر میں آجکل جو کچھ ہورہا ھے۔شخصیت پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔بہت کم لوگ ہو نگے جو اپنے لیڈر کے کارناموں کے ساتھ ساتھ اسکے خامیوں کو بھی بیان کریں۔ھمارے مذہبی لوگ بھی اپنی اپنی شخصیتوں (علماء کرام )کے پرستار ھیں۔انکے بنائے ہوئے معیار کو  follow  کرتے ہیں ۔ اب اگر کوئی اختلافی مسئلہ زیر بحث آجائے ۔تو ہر کوئی بغیر تحقیق کے اپنے ہی مرشد کو  follow  کرتا ہے۔حالانکہ کسو ٹی تو قران و حدیث ہے۔اسی طرح دو دیگر ماخذ شریعت اجماع اور اجتہاد،(قیاس) بھی ہیں۔۔واضح رہے کہ ہمارے اکثر علماء کرام اور دیگر سادہ لوح مسلمان نیک نیتی  کی وجہ سے ایسا کر تے ہیں۔گو کہ یہ ایک نقصاندہ بات ہے۔یعنی وہ سمجھتےہیں کہ یہی حق ہوگا جو انکے اکابر کرتے چلے آئے ہیں۔اور حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ والہ واسلام یہی بتا ئے ہو نگے۔لہذا عرض ہے کہ اس بنیادی تاویل کیوجہ کسی کے ایمان پر حملہ نہ کر یں۔کوئی بھی عالم دین یا عام مسلمان بے ایمان مر نا نہیں چاہتا ۔
شخصیت پرستی پر کڑی تنقید اسلے کی جاتی ہے۔کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی انسان  perfect  نہیں ہے۔ اور نہ اعلٰی القابات لگا نے سےکسی انسان کو perfect بنایا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی شخصیتوں سے سرزد ہونے والی غلطیاں واضح ثبوت ہیں۔اللہ تعالٰی ہم سبکی پردہ پوشی فرمائے۔
اماممالک رحمہ اللہ  محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ واسلام کے قبر مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرماتے۔کہ دنیا میں ہر شخص کی کہی ہوئی بات کو قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے سوائے اس صاحب قبر کے جسکی ہر بات قابل قبول ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی وحی کے ذریعے سب کچھ بتاتاہے۔شخصیت پرستی کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔جن میں اول نمبر پر نیک نیتی ہے۔یعنی اکثر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ فلاں بندہ بالکل غلط ھو ہی نہیں سکتا وہ جو کچھ کرےگا یا بتائے گا 100  فی صد درست ہوگا۔ باقی میں سے ذاتی مفاد کے لیے معاشی ،معاشرتی یا سیاسی لالچ  شامل ہیں۔
معاشرے کو راہ راست پر لانے کے شخصیت پرستی جیسے ناسور کو ختم کرنا ہوگا ۔حق کا ساتھ دینا ہوگا۔تحقیق کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔اور اختلاف رائے کی بنیاد پر مخالفت کو خیر باد کہنا ہوگا۔

ادارہ مشرق ٹی وی کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔