download 185

آزادکشمیر الیکشن،مریم نوازکی تقاریرکا تنقیدی جائزہ

آزادکشمیر الیکشن کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ بڑی پارٹیوں کے سربراہان گلگت بلتستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی اپنی پارٹیوں کی سیاسی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ کشمیری سیاستدان کارکردگی کے بجائے مریم نواز، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور عمران خان اور دیگر وزراء کے بل بوتے پر الیکشن لڑنے اور جیتنے کی کوشش میں مگن ہیں۔مریم نواز اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریروں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو دونوں ریاست کشمیر کے بجائے پاکستانی سیاست کے گرد گھومتے ہیں۔ان کے پاس متصادم سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔نظریاتی سیاست کی جگہ حادثاتی اور مفاداتی سیاست نے لے لی ہے۔ پی پی اور ن لیگ گلگت بلتستان میں صوبہ بنانے کا نعرہ اور آزادکشمیر میں کشمیریت کا نعرلگاتے ہیں۔ یہ دوغلہ پن کیوں؟ گلگت بلتستان بھی تو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اگر وہاں پر صوبہ بنانا درست ہے پھر آزادکشمیر میں کشمیریت کا نعرہ لگانا سمجھ سے باہر ہے۔ دونوں گلہ پھاڑ پھاڑ کرآزادی کشمیر پر تقریریں کرتے ہیں۔ دہائیوں سے دونوں جماعتیں برسراقتدار ہیں آج تک انہوں نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے؟مریم نواز نے مظفرآبا جلسے میں سیاہ رنگ کا لباس پہنا تھا جو موقعہ کی مناسبت سے کسی خاص طبقے، خوبصورتی، بہادری اور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ نیلم ویلی شاردہ جلسے میں سرخ رنگ کا لباس پہنا تھاجومحبت، لگاؤ، قربت اور تعلق کے علاوہ ممتاز ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔لباس کا انتخاب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مریم نواز کے لباس اورالفاظ کے چناؤ میں گہری مماثلت ہے۔ لباس میں برتری کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ور الفاظ کے زریعے بھی ’آپ کے بجائے، تم، بتائیں کے بجائے بتاو، کریں کے بجائے کرو،لگائیں کے بجائے لگاو وغیرہ کے الفاظ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لباس کے ساتھ کشمیر ی روائیتی ہاربھی پہنا تھا جوآج کے بعدان کے گلے میں کبھی نظر نہیں آئے گا۔ سیاسی محبت بس اتنی ہی ہوتی ہے۔مریم نواز نے اپنی تقاریر میں ’ہیں‘ کے بجائے ’ہو‘ کا صیغہ استعمال کیا جس سے عیاں ہے ان کا ہدف کشمیری نہیں بلکہ اقتدار ہے۔ تقریری کے دوران سپیکر اسمبلی اور دیگر رہنما لوگوں کو نعرے لگانے، ہاتھ بلند کرنے کے اشارے کرتے رہے جو نظریہ ن لیگ کی عدم مقبولتی کو ظاہر کرتا ہے۔جب عوام لیڈر کو دل سے پسند کرتی ہے اسے نعرے لگانے اور ہاتھ بلند کرنے کونہیں کہا جاتا۔مریم نواز اپنے ایجنڈے کی بندوق کشمیریوں کے کندھوں پر رکھ کر چلا رہی ہیں۔انہیں روائیتی کشمیری شال پیش کی گئی مگر کشمیر سے اتنی محبت ہے کہ اسے اوڑھنا گوارہ نہیں کیا بس تصوریر کشی تک ہی محدود رکھا۔ مریم نواز نے گلگت بلتستان میں بھی کمپین چلائی تھی ن لیگ حکومت میں تھی پھر بھی ہار مقدر بنی۔ کشمیری شہدا کو سرجھکا کر سلام پیش کرنے کی بات پرمریم نواز کو یہ نہیں بھولنا چاہیے تھا نواز شریف نے گارگل آپریشن پر بھارت سے معافی مانگی تھی اور پاکستانی ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ عوام کو مخاطب کر تے ہوئے ’دیکھیں‘ کے بجائے ’دیکھو اور ’پوچھیں‘ کے بجائے پوچھو‘ کے الفاظ استعمال کرتی رہیں جو ان کی موروثی اقتدار اور اپنے آپ کو عوام سے بالاتر سمجھنے کی سوچ کی عکاسی کر تے ہیں۔بار بار’آپ‘ کے بجائے ’تم‘ کا استعمال ن لیگ کے نعرے ووٹ کو عزت دو کے منافی ہے۔ لیگی رہنماوں کی جانب سے دی جانی والی پرچیاں بھی اعداد و شمار کے اعتبار سے غلط تھیں۔مظفرآباد پی ڈی ایم کے جلسے میں پاکستان کی آبادی20کروڑ بتائی جبکہ چند ماہ بعد چھتر کلاس کے جلسے میں آبادی 22کروڑ بتائی۔ چند ماہ میں آبادی کروڑوں تک کیسے پہنچ گئی۔آزادکشمیر میں پاکستانی سیاست پر تقریریں کرنے والی مریم نوازکو درست آبادی ہی معلوم نہیں۔ کشمیر پر دو منٹ کی خاموشی کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول گئی ن لیگ نے5فروری 2015میں کشمیریوں کے لیے سر کاری سطح پر صرف ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تھی۔سپیکر اسمبلی کا کشمیر ی پرچم کے بجائے جماعتی پرچم گلے میں ڈالنا اور اسے بار بار درست کرنا یہ ظاہر کر تا ہے انہیں کشمیر سے زیادہ ن لیگ پیاری ہے۔ کوئی عالمی قرارداد پیش نہ کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول گئی ان کی حکومت میں بھی ایسا ہی تھا۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے لیگی وزراء کی تعداد کافی زیادہ ہے جبکہ مریم نواز صرف دو کا ذکر کر رہی تھی۔اس کا مطلب ہے انہیں اپنے وزراء کی درست تعداد کا علم بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو چور کہنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ اگر ہم نے اپنے سیاسی کارکنا ن کی اس ٖڈگر پر تربیت کی تو یہ بہت بیانک ثابت ہوگا۔ عمران خان پہلے ہی پاکستانی سیاست میں گالی اور بدزبانی متعارف کروا چکے ہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہم اس کلچر کو اپنا لیں۔ مریم نوازدرخت گرنے پر گھبرا گئی نیلم والے بھارتی گولہ باری میں بھی اپنے کام کاج کرتے رہتے ہیں۔اگر درخت پر چڑھنے والے کشمیریوں کے لیے مریم نواز دعائیں کررہی تھی توان کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں اور وہ دھڑام سے زمین پر آگرے۔اگر ن لیگ پی ٹی آئی کے خلاف اقتدار کے لیے پی ڈی ایم بنانے کے بجائے آزادی کشمیر کے لیے متحدہ محاذ بناتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔شاردہ کا پل بہت ناقص ہے تو محترمہ پانچھ سال حکومت آپ کی تھی پکا پل لگوا دیتے۔جلسے میں صرف سامنے والے چند افراد نعرہ بازی کر رہے تھے باقی مجمعہ تقریر میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہا تھا۔ نیلم میں جولائی میں بھی رات کو اتنی سردی ہوتی ہے کہ رات کو دریا کے کنارے بیٹھنے والے صبح ہسپتا ل یا قبرستان ہوتے،تقریر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔پتہ نہیں مریم نوازکہاں کس دریا کے کنارے بیٹھ کر ساری رات کشمیریوں کے لیے دعائیں مانگتی رہی ہیں۔کشمیریوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے مریم نواز بھول گئی نواز شریف صاحب اتنے بہادر ہیں مشرف سے معاہد ہ کر کے جلاوطن ہو گئے اور ابھی بھی لندن میں قیام پذیر ہیں۔جو اپنے مقدمات کو سامنا نہیں کر سکتا وہ کشمیریوں کا مقدمہ کیا خاک لڑے گا۔ مریم نواز کی تقریر کا اکثر حصہ مظفرآباد پی ڈی ایم کے جلسے میں کی گئی تقریر پر مشتمل تھا اور ہٹیاں کے مقام پر کی جانے والی تقریر بھی معمولی ردوبدل کے بعد مظفرآباد اور شاردہ والی ہی تھی۔عمران خان کو کون لایا کے سوال کے جواب میں عوام میں سے دوتین افراد نے ہی جواب دیا باقی کسی نے اس بات کو اہمیت نہیں دیا۔فوج پر تنقید کی مگر یہ بھول گئی ان کا سار ا خاندان عدالت سے سزاء یافتہ اور مفرور قرار دیا جا چکا ہے اور ن لیگ خود فوج کی پیداوار ہے۔ میڈیا پر مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھول گئی ن لیگ دور میں صحافیوں کو نیچے گرا کر نواز شریف کے پرسنل سیکورٹی گارڈ ان کے سر وں پر کود کر جاتے تھے۔سپیکر اسمبلی کا پی ٹی آئی شامل ہونا عجب نہیں شاہ صاحب نے جانے کی بڑی کوشش کی مگر انہیں قبول نہیں کیا گیا۔ عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے ن لیگ کی مقبولیت کے بارے جھوٹے میڈیا سروے کا حوالہ دیا۔مریم نواز نے کہا عمران خان سپیکر اسمبلی سے پوچھتا تھا بتاو میں کیا بات کروں یہ کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ عمران خان اور کچھ کرے نہ کرے تقریریں اچھی کر لیتا ہے۔آزادکشمیر کی سیاست پرامن ہے مریم نواز نے دھاندلی کا قبل از وقت نعرہ لگاتے ہوئے کارکنان کو رزلٹ خلاف آنے پر بدامنی پر اکسایا ہے جو کہ درست نہیں۔شاہ صاحب نے مریم نواز کو غلط معلومات دیں۔ انہوں نے شاردہ میں کوئی ڈگری اورکیل میں گرلز کالج نہیں بنایا ہے۔ن لیگ کی 5سالہ حکومت ایک سکول یا ہسپتال تو بنا نہیں سکی اب یونیورسٹی بنائے گی۔ کشمیر میں کوئی سیاسی لائحہ عمل دینے کے بجائے تقریر کا نشانہ عمران خان اور پی ٹی آئی رہی۔نریندر مودی کے نواز شریف فیملی کے ساتھ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کشمیرکا بیٹاکشمیریوں کے قاتل مودی کو اپنی شادیوں میں مدعو کر ے تو کیا کشمیری اتنے بیوقوف ہیں جو کشمیریوں کاخون بھول جائیں گے۔ نوازشریف کی ہمدردیاں کشمیریوں سے زیادہ مودی کے ساتھ ہیں۔ اسی لیے مریم نواز نے بھارتی وزیر اعظم کے لیے ’آتے ہیں‘ کا صیغہ استعما ل کیا ہے جبکہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لیے ’ہو‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ،ہر تقریر میں وہ ایسے ہی فکس صیغے خاص مقاصد کے لیے اور مخصوص افراد کو پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر دہائیوں تک مسلم کانفرنس نے اپنے اقتدار کے لیے کشمیریوں کو بیوقوف بنائے رکھااب ان کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یواین او کی قراردادوں اور آئین پاکستان میں کشمیر بنے گا پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ محض ایک سیاسی نعرہ ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے کشمیریوں پر تھونپ دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے 2016کے الیکشن کے دوران فرمایا تھا نیلم کو موٹروے دوں گا مگر وہ موٹروے تو نہیں مل سکی۔بیٹی کہتی شاردہ میں یونیورسٹی بنائیں گے۔ ہم یا تو بہت معصوم لوگ ہیں یا بہت ہی بے قوف ہیں جو ہر مرتبہ ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔2016میں نواز شریف نے ہسپتال بنانے کے وعدے کیے مگر کشمیریوں کے لیے تودرکنا اپنے علاج کے لیے بھی کوئی ہسپتال نہیں بنا پائے۔کشمیری بیٹی بھی عجب بیٹی ہے جسے الیکشن کے دوران ہی اپنا گھر یاد آتاہے۔مریم نواز نے گلگت بلتستان میں ن لیگ چھوڑنے والوں سے متعلق ہارجانے کاجھوٹ بولا۔ ایڈوانس انتخاب جیتنے کی بات انتہائی مزاحیہ ہے کیونکہ مریم نواز عوام کو ووٹر سمجھ رہی ہے جبکہ یہ جلسہ انجوائے کرنے آئے تھے ووٹر نہیں تھے۔

بلاگر: پروفیسرعبدالشکورشاہ

ادارہ مشرق ٹی وی کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔