2 543

اڈوں کی فرمائش اور کھسیانی بلی

امریکی ٹی وی نے عمران خان سے اڈوں کی فرمائش پر ان کا ردعمل پوچھا تو انہوں نے قطعیت سے کہا Absolutley notگویاکہ پاکستان امریکہ کو افغانستان میں فوجی کارروائی کے لئے ہرگز اڈے فراہم نہیں کرے گا۔کئی روز تک تو امریکی اس حرف ِانکار کی کسک اور چبھن محسوس کرکے سکتے میں رہے کیونکہ ان کو ماضی میں کبھی پاکستان سے ایسادوٹوک جواب سننے کو نہیں ملا اور وہ بھی سول ایوانوں سے ۔پاکستان کے اکثر سول حکمران امریکی دبائو پر اگر معذوری ظاہر کرتے بھی رہے ہیں تو بیک چینل سے یہ پیغام بھی بھیجتے رہے ہیں کہ وہ ایسا قدم فوج کے دبائو میں اور عالم مجبوری میں اُٹھارہے ہیں کیونکہ فوج پاکستان کے سسٹم میں بالادست ادارہ ہے ۔کئی ایک تو میمو گیٹ کے ذریعے اس کا حل بھی تجویز کرتے رہے کہ امریکہ پاکستانی فوج کو قابو کرکے سول حکومت کو بالادست بناڈالے ۔ایسے ماحول میں ہرگز نہیں کا جواب غیر متوقع بھی تھا اور شرمندگی اور ندامت کا باعث بھی ۔کچھ دن سانسیں بحال ہوئیں تو پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا کہ آخر اڈے کون مانگ رہا ہے اور کب مانگ رہا ہے ؟۔ ٹی وی سٹوڈیوز اورپارلیمنٹ میں بھی یہ سوال بار بار اُٹھایا جانے لگا ۔اسی دوران کون مانگ رہا تھا کا سوال شد ومد سے پوچھنے والے بلاول بھٹو زرداری آزادکشمیر کا اہم ترین انتخابی معرکہ ادھو را چھوڑ کر امریکہ سدھار گئے ۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ایک اخبار نے نامعلوم مغربی سفارت کاروں کے حوالے سے خبر بریک کی کہ واشنگٹن میں یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ جب پاکستان سے کسی نے اڈے مانگے ہی نہیں تو انکار کی کیا بات ہے؟۔مغربی سفارت کار یا تو لاعلم اور مغربی اخبار ات کا مطالعہ کرنے سے گریزاں ہے یا ان کی زبان سے زبردستی ہی یہ” حیرت” ظاہرکروائی گئی ہے اور اس کا تعلق ”ہرگز نہیں” کہ پاکستان میں سیاسی اثرات کو کم یا زائل کرنا ہے گویاکہ یہ داخلی سیاست کا معاملہ ہے ۔امریکہ کے اخبارات باربار امریکی اہلکاروں کے حوالے سے لکھتے رہے کہ افغانستان سے مکمل انخلاء کے بعد امریکہ کو داعش ،طالبان اور القاعدہ پر دبائو برقرار رکھنے کے لئے فوجی ائر بیسز درکار ہیں اس کے لئے وسط ایشیا اور پاکستان سے بات چیت چل رہی ہے ۔ایک امریکی اخبار نے تو یہ خبر بھی چھاپ دی تھی کہ اڈوں کے سلسلے میں پاکستان سے معاملات طے پاچکے ہیں۔جس کی پاکستان کی طرف سے پرزور تردید کی گئی ۔وسط ایشیا ئی ملکوں میں اڈے روس اور چین کی مداخلت کی وجہ سے نہ مل سکے تو پاکستان سے سرے سے
حرف انکار بلند کیا اور یوں اڈوں کی خواہش کی کلی بن کھلے مرجھا گئی۔اب کھسیا نی بلی کھمبا نوچنے کے انداز میں کہہ رہی ہے یاداخلی سیاسی ضرورتوں کے تحت ان سے یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ اڈے کس نے مانگے ؟۔تین دن پاکستان اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر سوئٹزرلینڈ میں موسم اور کرکٹ پر مذاکرات کرتے رہے کیا؟شیکسپئر کے ڈرامے اور جون کیٹس کی شاعری زیر بحث رہی ؟عین اس وقت جب امریکہ رات کی تاریکی میں بگرام ائر بیس سے کوچ کرجانے کا فیصلہ کر چکا تھا قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقاتوں کا کیا مطلب تھا ؟۔ڈاکٹر معید یوسف نے تو ان مذاکرات کا احوال بیان کرنے میں احتیاط کا دامن تھامے رکھا مگر امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے تو کئی مواقع پر بالواسطہ طور پر تسلیم کیا کہ ان مذاکرات میں ائر بیسز پر بات ہوئی ہے مگر وہ نتیجہ خیز نہیں رہی ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے اڈوں کی بات زمانہ قدیم کا قصہ یا جنگ عظیم اول کی بات ہو ابھی تو اس
حوالے سے چھپنے والے مواد کی سرخیاں بھی تازہ ہیں اور ایسے اخبار ردی کی زینت بھی نہیں بنے ہوں گے جن میں اس مچلتی خواہش کے افسانے رقم ہیں۔قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں جو کچھ چھپا اس میں بھی خطے میں مستقبل میں امریکی مفادات کی نگہداشت کے حوالے سے تشویش کا پہلو ہی ظاہر ہوتا ہے ۔حیرت یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں دفاعی پوزیشن اختیار کئے بیٹھی ہے۔انہیں بتانا چاہئے کہ امریکہ نے کب اور کس سے فوجی اڈے مانگے ؟یہ خاموش اور پراسراریت عمران خان کے مزاج کے خلاف ہے۔کب کیوں اور کیسے کے سوالات اُٹھانے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ عمران خان کل ہی وزیر خارجہ یا قومی سلامتی کے مشیر کو اس فرمائش کا بہی کھاتہ نکال کر پریس کانفرنس میں سنانے کا کہہ دیں گے تو پھر ان سوالات کی کیا اہمیت رہے گی ۔امریکی اس کی فقط تردید ہی کریں گے اور تردید کسی بھی غیر تحریری بات اور فرمائش کی ہو سکتی ہے ۔داخلی سیاست کے لئے اس معاملے میںامریکہ کو فیس سیونگ دینے والے اپنے تئیں مستقبل کے لئے سیاسی سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔”انکل جو بائیڈن” کو تمغے پہنانے کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔خطے اور کرہ ٔ ارض کی سیاست بہت آگے نکل گئی ہے ۔جو پاکستانی حلقے سیاسی سرمایہ کاری کی سوچ اپنا کر آگے بڑھ رہے ہیں حقیقت میں غلط پچ پر کھیل رہے ہیں وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اب امریکی سفیر کراچی کے میئر اور امریکی صدر پاکستان کے وزیر اعظم اور پنٹاگون بقول حمید گل آرمی چیف کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔امریکہ نے وہ لیوریج کھو دیا ہے وگرنہ پاکستان تو سو جوتے اور سو پیاز کھانے کا خوگر ہو کر رہ گیا تھا اور اسے اپنے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر شکر کئے بیٹھا ہے ۔بدلتے ہوئے زمانے کی خود سر لہرنے اس مقام سے پاکستان کو کسی اور کنارے کی جانب اچھا ل دیا ہے اور اب یہیں کھڑے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام