4 425

کرپشن کا کلچر

ملک بھر میں جاری اسکولوں اور کالج کے امتحانات بوٹی مافیا کے موسم کی آمد کی نشاندہی کر رہے ہیں، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے ، قومی گفتگو اب امیدواروں اور امتحان دہندگان دونوں کی خرابیوں پر مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ امتحانات ‘بورڈ کی نااہلی اور بدعنوانی زیربحث ہیں جو نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام کی اس بدصورت خصوصیت کو برداشت کرتے ہیں بلکہ حقیقت میں اس کو سہولت بھی دیتے ہیں،اگر اس سے ہمارے تعلیمی نظام کے کرتا دھرتائوں کو راحت پہنچتی ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تنہا نہیں ہیں،حقیقت یہ ہے کہ امتحانات میں بوٹی مافیا ہمارا معاشرے میں قومی سطح کی کرپشن کا لازمی جزو بن چکا ہے،جو سب سے زیادہ نااہل ہیں وہی سب سے زیادہ کرپٹ ہیں،محکمہ پولیس کو لے لیں اس سے متعلق ایک واقعہ مجھے ہر جولائی میں یاد آتا ہے جب امریکی وزیر خارجہ انسانی اسمگلنگ کی رپورٹ جاری کرتے ہیں جس میں پاکستان کے اعداد و شمار کافی نمایاں ہیں،میں اس میں دلچسپی لیتی ہوں کیوں کہ میں دو نابالغ لڑکیوں کے معاملے کی پیروی کررہی ہوں جنہیں ان کے سوتیلے بھائی نے غلط کام کے لئے فروخت کر دیا تھایہ چونکا دینے والی بات ہے کہ ہماری پولیس انہیں اب تک بازیافت نہیں کرسکتی،2021کی ٹی آئی پی رپورٹ میں پاکستان کو اسمگلنگ کے خاتمے کے لئے کم سے کم معیار پر پورا نہیں اترنے کا ذمہ دار ملک ٹھہرایا گیا ہے،اس رپورٹ میں ریاستی عہدیداروں کی مداخلت کو معاملے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیاہے،رپورٹ کے مطابق 2020میں پاکستان میں اغوا کیے جانے والے افراد کی تعداد 32022 ہے جو کہ2019میں19954تھی ،ان میں15255 خواتین جبکہ 6937 بچے تھے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں کوتاہی کے باعث مجرموں کو سزا نہیں ملتی جس باعث انسانی اسمگلنگ کو بھی فروغ ملتا ہے جو جسم فروشی جیسے گھنائونے کاروبار کی نشاندہی کرتا ہے،اور بھی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں،لیکن کچھ اختلاف رائے کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،تمام بدعنوانی کا مقصد در اصل غلط طریقوں سے کم وقت میں اضافی رقم کا حصول ہوتا ہے ،اس کی ضرورت نہیں ہے،لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیر قانونی ذرائع سے کمائی جانے والی یہ رقم ایک انتہائی غیر محفوظ شخص کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے جس میں اعتماد کا بھی فقدان ہوتاہے،درحقیقت غیر قانونی ذرائع سے کمائی جانے والی دولت نہ تو سلامتی کی ضامن ہوتی ہے اور نہ ہی اعتماد میں اضافے کی،پھر سوال اٹھتا ہے کہ کچھ معاشرے دوسروں سے زیادہ بدعنوان کیوں ہیں؟ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کچھ ریاستوں میں جرائم کے بعد قانونی گرفت کے ڈھانچے مضبوطی سے موجود ہیں اور بدعنوان شخص آسانی سے نہیں نکل سکتا، ایسے معاشروں میں غلط کام کرنے کی سزا ہر صورت بھگتنا پڑتی ہے،دوسرا عنصر یہ ہے ایسے معاشرے کو جرم سے نفرت کرنا سکھایاجاتا ہے ،شفافیت اب مروجہ نہیں رہی ہے ، جس نے نا قابل قبول حد تک بدعنوانی کو قبول کرنے کا زاویہ متعارف کرایا ہے،حرص اور لالچ آج معاشرے میں اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ انفرادی اور قومی فیصلہ سازی حتی کہ مذہبی اقدار سے متعلق امور کو بھی متاثر کیا ہے،یہ کیسے ہوا؟ اس کی دو اہم وجوہات ہیں ، پہلے نو لبرل ازم کی معاشیات ہے جو کولڈ وار کے بعد کے زمانے میں ابھری ہے اور اب تک اس کے جڑیں مضبوط ہیں، اس کا مطلب دولت کی حرص ہے، دوسرا میڈیا کا کردار ہے، ڈیجیٹل ، سماجی اور مرکزی دھارے میں شامل میڈیا اس رجحان میں حصہ ڈال رہا ہے، اس حد تک دولت کی حوص ابھاری جاتی ہے کہ یہ لالچ انسانی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے پھر اس پراسس کو ،مواصلات سے تیز تر کر کے عالمگیر رجحان میں بدلاجاتا ہے،اگرچہ اس تاریک زمینی صورتحال میں بھی کسی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے،حکومت اور مسند اقتدار پر فائز دیگر ادارے/حکام بدعنوانی کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کررہے ہیں، جہاں سب سے زیادہ اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں وہ شفافیت کے حق میں رائے سے متعلقہ ہے،یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے انفرادی حیثیت سے کی جانی والی کوششیں اتنی آسان نہیں، اب وقت آگیا ہے کہ انفرادی سطح پر میڈیا کے برے اثرات کے خلاف مہم چلائی جائے،بہت ساری جگہوں پر ایسے بہت سارے مطالعاتی گروپس اور رہنمائی کرنے والے حلقے موجود ہیں،پچھلے ہفتے میں لیاری میں راجی بلوچ خواتین ایسوسی ایشن کی ممبران کے ساتھ زبان کے معاملے پر گفتگو کر رہی تھی ،ایسے کون سے عناصر ہیں جو ان کی تسلسل سے ہونے والی باہمی ملاقاتوں میں انہیں میڈیا اور اس کے نوجوانوں کو بدعنوانی کی راہ پر گامزن کرنے میں کردار پر بات چیت سے روکتے ہیں، دوسرے کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی رائے اور نئے اور پرکشش خیالات کو بیان کرنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے ان کی فہم و دانش حیران کن ہوتی ہے، میں ایسے کئی لوگوں سے مل چکی اور ایسی کئی گفتگوں کا حصہ بن چکی ہوں،ہمیں اس طرح کے استعداد کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو کرپشن کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
(بشکریہ’ ڈان ،ترجمہ: واجد اقبال)

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی