p613 389

افغان حکومت صبر وتحمل اور تدبر کا مظاہرہ کرے

افغان سفیر کی صاحبزادی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی جامع تحقیقات اور نتیجہ برآمد ہونے پر ہی واقعے کی نوعیت کا علم ہو گا تحقیقات میں عدم تعاون اور معاملات کو الجھانے کا جو رویہ اختیار کیا جارہا ہے اس سے شکوک و شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے اس واقعے کی تحقیقات میں تعاون اور دونوں حکومتوں کا مشترکہ طور پر واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش حالات کا تقاضا تھا مگر افسوسناک طور پر افغانستان پاکستان سے سفارتی تعلقات کی نوعیت ہی تبدیل کرنے کو ترجیح دی جو سمجھ سے بالاتر امر ہے۔ قطع نظر اس واقعے کے ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم حکومت افغانستان کی جانب سے اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کی امید رکھتے ہیں ترجمان کا کہنا ہے کہ سفیر کی بیٹی کے اغوا اور حملے پر وزیر اعظم کی زیرہدایت اعلی سطح پر تحقیقات کی جارہی ہے۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق تفتیشی ٹیم نے افغان سفیر اور ان کی بیٹی سے ملاقات کی جس میں وقوعہ سے متعلق سوالات کیے گئے۔تفتیشی ٹیم کے مطابق افغان سفیرکی بیٹی کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی ۔تفتیشی ٹیم کے مطابق افغان سفیرکی بیٹی کے بیان پرکیمرے چیک کر کے نقشہ بنایاگیا، متاثرہ خاتون یہ نہیں بتاسکی وہ اپنے گھر سے کہاں گئی تھی انہیں علم نہیں تھاکہ ہمارے پاس ویڈیو ہے اور اب یہ انویسٹی گیشن سے بھاگ جائیں گے۔شیخ رشید کا کہنا تھاکہ یہ حساس معاملہ ہے اور بھارت دنیا میں پاکستان کو بدنام کر رہاہے، یہ انٹرنیشنل ریکٹ ہے اور را کا ایجنڈا ہے۔ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے سفارتی عملے اور پڑوسی ملک کے لئے موزوں امر تو یہ تھا کہ تحقیقات میں تعاون کیا جاتا اورتحقیقات کے نتائج کا انتظار کیا جاتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کابل کو پاکستان سے تعلقات سے زیادہ پاکستان کو مطعون کرنے کی جلدی تھی جس کی سمجھ میں آنے والی وجہ افغان حکومت کا داخلی عدم استحکام اور داخلی دبائو اور غیر یقینی کی صورتحال ہو سکتی ہے جس سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک ایسے جذباتی عمل کا سہارا لیا گیا جس کے ذریعے روایتی معاشرے میں ہمدردی و نفرت کے جذبات کا اپنے حق اور دوسرے کی مخالفت میں استعمال کیا جاسکے ۔ قطع نظر اس واقعے کے معمول کے مطابق بھی افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات کوابھار دینے کی ایک منظم سازش وقتاً فوقتاً ذیل و بم کے ساتھ چلتی رہتی ہے جسے این ڈی ایس اور را کی مشترکہ حکمت عملی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کی سرحدوں پر دبائو اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان حالات سے نمٹنے کے لئے جس قدم ہم آہنگی کی ضرورت ہے اس کی ضرورت کا کابل کو احساس نہیں۔ افغانستان کے داخلی معاملات اس کا اندرونی معاملہ ہیں اور پاکستان سے سفارتی تعلقات جداگانہ معاملہ ہے افغان حکومت بجائے اس کے کہ طالبان سے معاملت میں پاکستان کے مفاہمانہ اور مثبت کردار کو سراہے مختلف قسم کی الزام تراشیوں پر اتر آئی ہے اور اب ایک طرح سے پاکستان سے سفارتی تعلقات بھی ختم کرنے کے دہانے پر ہے جس کے خطے پر اثرات اپنی جگہ خود افغانستان کے عوام اور پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں افغانستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ معاملات کو سفارتی اور حکومتی سطح پر نمٹانے اور اس سازش کو بے نقاب کرنے میں پاکستان سے تعاون کرے تفتیش اورتحقیقات میں تعاون کیا جائے اور سفارتی عملے کی واپسی کے فیصلے پر نظرثانی کرے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اس اہم وقت میں جب رابطوں تعاون اور مشاورت کی زیادہ ضرورت ہے رابطہ مستحکم رہے اور دونوں ممالک مل کر اس صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سے نکلنے میں کامیاب ہوں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ