p613 392

پھر لاک ڈائون کا خطرہ

خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر دوبارہ سے بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کرنے پر غور شروع کردیا گیا ہے اس تناظر میں گذشتہ مہینے کورونا کی شرح میں کمی کے پیش نظر کاروباری اور سماجی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بحال کردیا گیا تھا تاہم گذشتہ چند روز میں خیبرپختونخوا میں کورونا کے مثبت کیسوں کی شرح میں تین فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پشاور میں یہ شرح پانچ فیصد سے اچانک بڑھ کر13فیصد سے زائد ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہیں اس لئے دوبارہ سے پابندیاں لگانے پر غور ہورہا ہے دوسری جانب ملک بھرمیں مئی کے بعد کورونا کیسز کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہے جو حیرت انگیز امر اس لئے ہے کہ عام خیال ہے کہ کورونا گرمیوں میں نہیں پھیلتا بہرحال گزشتہ
سال کے برعکس اس سال شدید گرمی میں بھی کرونا کیسز میں کمی نہ آنا معمہ ہے اس کی وجوہات بارے ماہرین کو عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ قبل ازیں ماہرین اس پر زور دے رہے تھے کہ گرمیوں میں کیسز کی شرح میں کمی آئے گی اور گزشتہ سال یہ درست بھی ثابت ہوا مگر ایک سال بعد گرمی کے موسم بلکہ جوبن گرمی میں اس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے قطع نظر ضرورت اس امرکی ہے کہ اسے ہنگامی اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں لاک ڈائون جیسے مشکل فیصلے سے بچاجا سکے ۔ اصولی طور پر ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد عوام اور حکام دونوں کو حالات کو سمجھنے اور اس کے مطابق اقدامات کااب اندازہ اور تجربہ ہونا چاہئے تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس سے غفلت ولاپرواہی کا مظاہرہ معمول بن چکا ہے ویکسین لگانے کی رفتار بھی تسلی بخش نہیں اور نہ ہی حکومتی ا نتظامات اس حوالے سے کافی ہیں مشکل امر یہ بھی اب سامنے آئی ہے کہ ویکسین لگانے کے باوجود نہ صرف لوگ کوروناکا شکار ہونے لگے ہیں بلکہ اس کی شدت سے ویکسین لگانے کے باوجود مریض کی موت کی مصدقہ اطلاع ہے اس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ یا تو ویکسین ہی غیر مؤثر ہے یا پھر ویکسی نیشن کا عمل مشکوک ہے اگر اس طرح کی صورتحال مزید سامنے آئی تو پہلے سے ہچکچاہٹ کا شکار اور ویکسین لگانے سے گریزاں افراد کو اعتراض کا ٹھوس موقع میسر آئے گا۔ حکومتی کمزوری اور لاپرواہی بھی کم نہیں کیونکہ حکام کی جانب سے بس ترغیب و تنبیہ سے کم ہی بات آگے بڑھی ہے بی آر ٹی کی بند بسیں ہوں یا کھوے سے کھوا چھلتے بازاریں کہیں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور اختیار کروانے کی زحمت نہیں ہو رہی اب جبکہ ایک مرتبہ پھر صورتحال گمبھیر ہو رہی ہے تو مزید اقدامات نہ سہی کم سے کم ممکنہ احتیاطی تدابیر تو اختیار کرنے پر توجہ دی جائے اور اس حوالے سے عملی اقدامات کئے جائیں۔
عام آدمی کو فائدہ ملنا چاہئے
حکومت کی جانب سے پیٹرول پر سیلز ٹیکس میں مزید کمی کے بعد پٹرول کو فوری طور پر سستا ہونا چاہئے اخباری اطلاعات کے مطابق پیٹرول پر سیلز ٹیکس شرح 16.4فیصد سے کم کرکے10.77فیصد کردی گئی، ہائی سپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل پر سیلز ٹیکس کی شرح برقرار رہے گی۔ جس طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان رات بارہ بجے فی الفور لاگو ہوجاتا ہے اسی طرح اس کا بھی اطلاق ہونا چاہئے۔حکومت اگر پیٹرول کی بجائے ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کرتی تو اس کا عام آدمی کو زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان تھا بہرحال پیٹرول پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کے بعد اس کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات کوعام آدمی تک پہنچانے کے بھی اقدامات ضروری ہیں جس کے بغیر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی عام آدمی کے لئے بے معنی ہوگی۔
عملدرآمد کراکے تو دکھائیں
خیبر پختونخوا میں مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت21000 روپے بطور تنخواہ ادا کرنے سے متعلق ا علامیہ جاری کردیا گیا ہے ۔ حکومت کی طرف سے اس طرح کے اضافے کا فائدہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ا ہلکاروں کو ضرور پہنچے گا نجی اداروں میں اس کااطلاق حکومت کااصل امتحان ہو گا جس میں قبل ازیں بھی کامیابی کی سنجیدہ کوششیں ہی کبھی نظر نہیں آئیں اس مرتبہ بھی اس اعلان کا حشرپہلے سے مختلف نہیں ہو گا۔ حکومت اگر مزدور کی کم سے کم اجرت کی بجائے اسے سرکاری اداروں ہی کی حد تک اعلان کرتی تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ جو کام حکومت کرنے کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی اس کا دعویٰ نہ ہی کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
احتجاجی ملازمین سے مذاکرات کی ضرورت
خیبر پختونخوا کے منسلک محکموں کے افسروں اورملازمین کی تنظیم نے جمعرات کو حکومت کے خلاف پاور شو کا اعلان کر دیا ہے تنظیم نے قلم چھوڑ ہڑتال جاری رکھنے اور دوسرے مرحلے میں جیل بھرو تحریک کا بھی اعلان کر دیا ہے سرکاری ملازمین نے دھمکی دی ہے کہ اگرمطالبات منظو نہ ہوئے تو اسلام آباد کی طرف مارچ اور پارلیمنٹ کے سامنے مستقل دھرنا دیا جائے گاسرکاری ملازمین میں پھیلی ہوئی بے چینی اور احتجاج کے خاتمے پر حکومت کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کب تک چلے گا اس کا اندازہ نہیں البتہ اس کا اختتام بالآخر مذاکرات پر ہی ہوناہے لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ مذاکرات کئے جائیں اور معاملہ جلد طے کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی