p613 393

مشرقیات

دس رکنی دستے میں تین نے واپسی کاٹکٹ کٹالیا ،معجزوں کے انتظار میں بیٹھی قوم کی اب تمام امیدیں ان سات کھلاڑیوں سے وابستہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح اولمپک مقابلوں کی دوڑ میں تو شامل ہوگئے تھے مگر حریفوں کی تیاری دیکھ کر ہی ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں،اس پر بھی ان کھلاڑیوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے،”مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا”
،آپ کسی بھی کھیل سے وابستہ بابے سے پوچھیں تو وہ یہی رونا روئے گا کہ مسئلہ ٹیلنٹ کی کمی کا نہیں سہولیات کی عدم فراہمی کا ہے، مزید فنڈز فراہم کردیں تو بھی یہ رونا جاری رہے گا، اتنی سمجھ کسی کو نہیں آرہی کہ مسئلہ ٹیلنٹ کی کمی کا نہیں ان بابوں کی تقرری کا ہے جو عرصے سے کھیلوں کی تنظیموں کے اجارہ دار بنے ان سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔آپ نے قومی کھیل کی تباہی کا حال دیکھا ہی ہے، ایک وقت تھا جب ہمارا ہاکی میں کوئی جوڑ نہیں تھا بقول ایک ستم ظریف کے اب بھی نہیں ہے پہلے دنیا کی کوئی بھی ٹیم ہمارے مقابلے کی نہیں تھی ،اب ہم کسی کے مقابلے جوگے نہیںرہے ،بات ایک ہی ہے چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پہ۔
یا رلوگ کہتے ہیں کھیلوں کی بات آئے تو ہم نے کرکٹ میں جتنا نام کمایا ایسے ہی دیگر کھیلوں میں کوڑاکرکٹ اکٹھا کرکے اس سے زیادہ نام کمایا ہے۔جہاں اولمپکس مقابلوں میں بہترین پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں کو دنیا یاد رکھے گی وہیںہم ‘مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا’ کے ترانے گا کر کھیلوں کی تنظیموں سے وابستہ بابوں کے گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کریں گے۔سوال یہ ہے کہ کب تک ایسا کیا جاتا رہے گا اب یہ گندگی چھپائے نہیں چھپ رہی۔
ایک وقت تھا جب اسکولوں کی سطح پر ہاکی ،فٹ بال،والی بال،لانگ جمپنگ،باسکٹ بال وغیرہ کی کوچنگ کا خیال رکھتے ہوئے متعلقہ کھیلوں میں مہارت رکھنے والے اساتذہ کی بھرتی کی جاتی تھی،بعد میں صلاحیت کی جگہ سن کوٹے ،پرچی’ سفارش’یعنی سر جی نے لے لی،اس کے بعد سپورٹس تنظیمیں ہوں یا اسکولوں میں اس ضمن میں کی جانے والی تقرریاں وتعیناتیاں سب کے باقاعدہ دام لگ گئے،دام چکانے والوں نے پھر ان اداروں کو کمائی کے اڈے بنا لیا،فنڈز کم تھے یا زیادہ یہ سوال نہیں،فنڈز خرچ کہاں ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرلیں تو ہاکی ہو یا فٹ بال یا پھر دوسرا کوئی بھی کھیل، ہم سے کھیلنے والے کردار بے نقاب ہو جائیں گے، مگر یہ نقاب کشائی کرے گا کون ؟ہر بابے کا کسی نہ کسی ایسے بابے سے تعلق نکل آئے گا جس کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے۔اتنی اوپر تک کہ قانون کے لمبے ہاتھ بھی چھوٹے پڑ جائیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!