ایک ہفتہ قبل قتل کی ایک خوفناک واردات ہوئی اگرچہ قتل اب معمول کی واردات سمجھی جاتی ہے اور قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے پولیس بھی ذرا نہیں ہچکچاتی لیکن قتل کے اس مقدمے میں چونکہ قاتل اور مقتول دونوں شہرت اور اثرورسوخ کے حامل تھے اس لئے میڈیا میں بھی اس قتل کو زیادہ سے زیادہ زیر بحث لایا گیا اس لئے یہ عام نوعیت کا قتل نہیں خاص نوعیت کا قتل ہے اس مقدمے میں اسلام آباد پولیس قانونی تقاضے مناسب طریقے سے پوری کر رہی ہے جو قابل ذکر بات ہے بابائے مشرقیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد خاموشی بہتر ہوتی ہے یعنی مٹی پائو اس لئے قاتل اور مقتولہ بارے لب کشائی نہیں ہو سکتی ویسے بھی اسلامی طورپر بھی جب بندہ نہ رہے اور اس کا حساب کتاب بندوں سے آگے منتقل ہو جائے تو اس بارے اچھی بات ضرور کی جائے۔ ویسے بھی قابل اعتراض باتوں سے سوائے مردے کو تکلیف دینے اور ان کے لواحقین کی دل آزاری کے سوا حاصل کیا؟ ہر واقعے سے سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کی بہرحال ضرور ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کے واقعات چشم کشا ہوتے ہیں اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اتنی آزادی نہ دیں کہ آزادی کے نام پر بربادی اختیار کرنے کی نوبت آئے ۔ دین اور اخلاق حدود و قیود اور راہ و رسم آزادی و بے باکی غرض سوچیں تو کئی چیزیں سامنے آئیں گیی سوچیں غور کریں اور اک گام احتیاط اور بس ۔ بگاڑ کی سیڑھی کا پہلا زینہ چڑھنے کی نوبت نہ آنے دی جائے ایک زینہ چڑھ گئی یا چڑھ گیا پھر واپسی کا راستہ نہیں آگے ہی آگے بڑھنا ہے جو دین’ مذہب ‘اخلاقیات ‘ معاشرہ اور والدین کسی کے لئے بھی ہر گز ہر گز قابل برداشت امر نہیں مگر پانی سر سے اونچا ہوجائے تو پھر ماہر سے ماہر شناور کوبھی ڈوب جانے والے کو نکالنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے محولہ واقعے میں کیا ہوا یہی نا کہ مرضی کرنے دی گئی مرضی کی جاتی رہی معاملات چلتے رہے اور بگاڑ آگیا جب بگاڑ کا مرحلہ آگیا تو پھر اپنے آپ میں ہونا مشکل ہوتا ہے اور پھر وہ ہوتا ہے جو ہوا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے ہونی کو کوئی نہیں روک سکتا والدین کو اس واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں اور خاص طور پر بچیوں سے متعلق محتاط ہونا چاہئے والدین ناصحانہ اور دوستانہ رویہ اختیار کریں بچیوں پر شک نہیں ان پر مکمل اعتماد کریں البتہ ان پر کڑی نظر اس طرح ضرور رکھیں کہ بچے خاص طور پر بچیاں اسے محسوس نہ کر سکیں اور کسی منفی رد عمل یا والدین سے بدظن ہونے کی نوبت نہ آئے ۔ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو نوجوانی کی دہلیز پر بعض بچے نفسیاتی طور پر والدین کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں رفتہ رفتہ ان کو سمجھ آجاتی ہے والدین کے لئے یہ دن سخت ہوتے ہیں خواہ کچھ بھی ہو والدین بچوں کو ایسی آزادی نہ دیں کہ اس آزادی میں وہ اپنا سب کچھ کھو دیں اور پھر زندگی بھر کھوئی ہوئی موتی تلاش کرتی پھریں جو ایک مرتبہ کھو جائے تو پھر کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر نہیں ملتی۔ درناسفتہ اگر سفتہ ہوجائے تو بات ختم اور بس۔