1 568

ہائوسنگ سکیمیں اور شفافیت

کچھ عرصہ سے روزنامہ مشرق کے لئے زمینوں سے متعلق نظام پر لکھنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ زن، زر اور زمین کا صدیوں سے جرم کی دنیا میں جو کردار رہا ہے اس سے لوگ بخوبی آگاہ ہیں اور ان میں دیکھا گیا ہے کہ زمینوں کے معاملات سب سے زیادہ عدالتوں میں ہیں اور لوگوں کے لئے سخت مشکلات کا باعث ہیں خصوصاً ہائوسنگ سوسائٹیز اورپراپرٹی ڈیلنگ کی جو بھاگم بھاگ دنیا ہے اس میں عوام کی دلچسپی بھی بہت زیادہ ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے ایجنڈے کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور ان کی ٹیم نے صوبائی ہائوسنگ اتھارٹی کو بھی خاصا فعال کررکھا ہے جو یقینا قابل ستائش ہے۔ لیکن جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے جہاں زمین تو وہاں جرم کے آثار نمودار ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ حال ہی میں جلوزئی ہائوسنگ سکیم فیز تھری کے نام پر ایک منصوبہ کا اجرا کیا گیا۔ بقول صوبائی وزیر ہائوسنگ ڈاکٹر امجد علی خان اس منصوبہ میں جنرل پلاٹوں کے ساتھ معذوروں، بیرون ملک مقیم پختونخوا کے باشندوں یہاں تک کہ صحافیوں کے لئے کوٹہ بھی رکھا گیا۔ یہ پلاٹ پانچ مرلے، سات مرلے اور دس مرلے کی شکل میں تقسیم ہونے تھے اور اس کی جدید اور شفاف قرعہ اندازی کے لیئے پی آئی ٹی بی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تاکہ کمپیوٹرائزڈ طریقہ سے قرعہ اندازی ہو اور معاملات شفاف رہیں۔ باقی اس دوران کیا ہوا خود قرعہ اندازی کے نتائج پر پی آئی ٹی بی نے نوٹ درج کیا کہ اعدادوشمار آگے پیچھے ہوئے تو وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ خدا جانے مشین کو سرکار نے کیسے استعمال کیا کہ صحافیوں کے حوالہ سے جو بظاہر لسٹ موصول ہوئی اس میں پانچ صحافیوں کو دس دس مرلہ کے پلاٹ کی نوید سنائی گئی تھی۔یہ ایک سو اٹھاسی صفحات پر مشتمل کامیاب امیدواروں کے نام تھے۔ لیکن صفحہ نمبر پچاس پر میری نظریں ٹک گئیں۔لیکن ایک نام ایسا تھا کہ جسے صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے میں نہیں جانتا تھا۔ سوچا ہو سکتا ہے موصوف کا شمار اساتذہ کرام میں ہو لیکن ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود اس نام کا کوئی استاد ذہن میں نہیں آیا۔ پھر پریس کلب کے کچھ ساتھیوں سے پوچھا تو کوئی کچھ کہہ رہا تھا اور کوئی کچھ اور کہہ رہا تھا۔ جن کو اس نام سے وہ جانتے تھے اس میں سے کسی کا بھی پلاٹ نہیں نکلا تھا۔ لیکن ظاہری بات ہے کہ جب رپورٹر کے آگے نام لیا جاتا ہے تو اسے اس وقت تک بے چینی رہتی ہے کہ جب تک وہ اس شخصیت کا کھوج نہ لگالے۔ ایسا ہی اس موصوف کے ساتھ بھی ہوا۔ معلوم ہوا کہ موصوف ایک وفاقی ادارے کے ملازم ہیں۔ یہ اور بات ہے اور اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ صحافی اس طرح کی کوئی امدادیافائدہ حکومت وقت سے لے سکتا ہے یا نہیں؟ اور صحافی اور صحافت کی جو حالت اس وقت ہے یہ موضوع عالمانہ لگتا ہے۔ لیکن اسی شعبہ کا نام استعمال کرکے اگر کوئی فرد صحافت کے نام پر فائدہ حاصل کرتا ہے یقینی طور پر قابل مذمت ہے اور صحافتی اداروں اور تنظیموں کو چاہئے کہ اس پر آواز اٹھائیں۔ نہیں معلوم کہ وزیر ہائوسنگ کو اس بارے میں معلومات ہیں یا نہیں ہیں لیکن کچھ صحافیوں کے بقول اس قرعہ اندازی کے حوالہ سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو خبر دی جا چکی ہے۔ گو کہ میرے پاس اس حوالہ سے وزیراعلیٰ پختونخوا کی کوئی تصدیق موجود نہیں ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ بظاہر نظر آرہا ہے تو یہ تو صرف پانچ ناموں میں ایک نام ہے ایک سو اٹھاسی صفحات پر مشتمل اس قرعہ اندازی میں کیا کچھ کیا گیا ہوگا؟ کس طرح کیا گیا ہوگا؟ کیوں کیا گیا ہوگا؟ اس دوران کچھ ساتھیوں نے صوبائی ہائوسنگ اتھارٹی میں اپنے اپنے ذرائع سے بات کی تو معلوم ہوا کہ شفافیت کے حوالہ سے واضح احکامات موجود ہیں اور انہوں نے محکمہ اطلاعات کو بھی اعتماد میں لیا تھا ابتدائی طور پر اس کے علاوہ اگر پھر بھی کچھ سقم موجود ہیں تو پلاٹوں کے کاغذات دینے سے پہلے پہلے ہر کامیاب امیدوار کی مزید جانچ کی جائے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکاری ہائوسنگ سکیموں میں ماضی میں ایسا کئی بار ہوا ہے اور حق نہ رکھنے کے باوجود لوگ پلاٹ لے اڑے تھے لیکن محکمہ نے کارروائی کی اور بات عدالتوں تک پہنچی یہاں تک کہ عدالت میں بھی محکمہ نے مقدمہ جیتا اور اس شخص کو جمع شدہ رقم دے کر پلاٹ اس کے قبضہ سے چھڑایا گیا۔ میں نے اس تمام کہانی میں کسی کا نام نہ لے کر دراصل ایک صحافتی ذمہ داری نبھائی ہے۔ حالیہ قرعہ اندازی کے حوالہ سے یہ میرا ایک تاثر ہے ہو سکتا ہے کہ تمام معاملات قانون کے مطابق ہوں اور حقدار کو ہی اس کا حق مل رہا ہو لیکن ہمارا کام ہے سرکار کو بیدار رکھنا۔ چونکہ معاملہ تھا بھی میڈیا سے متعلق اس لئے اس کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا۔ ستر سال سے زائد سرکار کے اس نظام کو سدھرنے میں ظاہر ہے کہ وقت بھی کافی لگے گا۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیں اور انصاف کے لئے اس کا کردار کسی نعمت سے کم نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیئے کہ اس کمپیوٹر اور اس مشین کو چلانے والے بھی ہم انسان ہی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  صحت کار ڈنہیں صحت کا مستقل نظام ضروری ہے