logo 90

محتاط رہنے کی ضرورت

روایتی اور اقدار کا حامل خیبر پختونخوا کے معاشرے میں بدلتے وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس سے پورے معاشرے کی ہیئت ہی تبدیل ہو گئی ہے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسی ایسی وارداتیں اور خاص طور پر معاشرتی و خاندانی طور پر ایسے مظاہر اور وارداتیں ہونے لگی ہیں کہ اس کی گراوٹ اور پستی کا کوئی اندازہ نہیں کم ہی علاقے خاندان اور گھرانے ایسے رہ گئے ہوں گے جس میں پختون ثقافت و روایات شہری و سماجی آداب اور ایک مشرقی معاشرے و تہذیب کا رنگ باقی ہوگا اس کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور اغیار کی اندھا دھند پیروی ہے جس کے باعث اب یہ معاشرے نہ مذہبی رہا نہ روایتی پختون معاشرہ اور نہ ہی مشرقی و خاندانی کوا چال ہنس کی چال کے مصداق معاشرہ اب ایسی الٹی چالیں چل رہا ہے کہ ماں باپ ‘ بہن بیٹی ‘ بھائی ‘ چچا او ر ماموں کے مقدس رشتوں کا تقدس بھی باقی نہیں رہا یا پھر خطرے میں ہے شوہر کی بیوی سے بے وفائی کا تو تذکرہ ہی کیا اب شوہر کی عزت اور عصمت میں خیانت کے باعث قتل کروانے اور قتل ہونے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے ممکن ہے قبل ازیں اسی طرح کے واقعات پہلے پہل آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق ہوتے ہوں گے اور کچھ خوف خدا اور رشتوں کا تقدس بھی کار فرما ہو گا مگر اب رشتوں کی حرمت اور تمیز باقی نہیں رہی کتنی ویڈیوز کتنی تصاویر کتنے قابل اعتراض گفتگو جب کچھا چٹھا سامنے آنے لگتا ہے تو سوائے رسوائی مقدر ہونے کے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا معاشرے کی بے راہ روی اور والدین کی اولاد کو بیجا آزادی سے کس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں اس کی ایک مثال اسلام آباد میں ہونے والے قتل کا مشہور واقعہ ہے قطع نظر ان امور کے اب برائی کو چھپانا مشکل ہو گیا ہے اب برائی خود کو برموقع محفوظ اور ریکارڈ کر لیتی ہے نامعلوم جانب سے ویڈیوزبنتی ہیں کوئی کسی جگہ کیا حرکت کر رہا ہے یا کر رہی ہے اس کی موقع پر ویڈیو بنتی ہے وہ سی سی ٹی وی کیمرے جو عام طور پر خود حفاظتی کے لئے لگائے گئے ہوتے ہیںان کی ریکارڈنگ جب آپریٹرز کے ہاتھ لگ جاتی ہے یا کوئی اتفاقی واقعہ ہونے پر ریکارڈنگ چیک کرنے کی ضرورت پڑتی ہے سب آشکارا ہونے کا باعث بنتا ہے راہ چلتے بھی اب کوئی محفوظ نہیںہاتھ میں تھامے فون کا کیمرہ ہیک ہوجاتا ہے اب تو بیچ سڑک ہونے والی سرگرمی اور حرکات کی ویڈیو جوبن کر وائرل ہونے کا معمول ہے اس کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اب ظلم اور مظلومیت دونوں کا ثبوت مل جاتاہے کوئی خاتون کسی ٹریفک پولیس اہلکار اور پولیس والے کو تھپڑ جڑ دیتی ہے یا پولیس اہلکار ریڑھی بان سے مفت پھل کم دینے پرتشدد کرتا ہے کسی حکمران کے قافلے میں کتنی گاڑیاں اور حکمران کس ٹھاٹھ سے نکلتے ہیں سب کیمرے کی آنکھ محفوظ کرتا ہے کیمرے کی گواہی کو اب گواہی ماننی پڑتی ہے بہت سے ایسے مناظر اور مظاہر محفوظ ہونے لگے ہیںجس سے حکمرانوں ‘ پولیس اہلکاروں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں سبھی کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ خدا خوفی ہوتی تو کیمرے کی بیباک آنکھ سے فرق نہ پڑتا مگر خدا خوفی نہیں رہی تو کم از کم کیمرے کی آنکھ ہی سے محتاط رہا جائے اور کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جو رسوائی وخجالت کا باعث بنے اک گام احتیاط! معمولات صبح و شام کی جتنی ضرورت اب ہے شاید پہلے کبھی تھی۔ کیمرے کی ننگی آنکھ جہاں سب عریاں و طشت ازبام کرنے کے لئے مستعمل ہے بیک وقت وہی آنکھ روک ٹوک اورممنوع و باز رکھنے کے لئے بھی ا ستعمال ہو رہا ہے جس سے احتیاط کرنا اپنا ہی مفاد ہے کوئی کام ایسا کرنے کی حاجت ہی کیا جو بعد میں گلے پڑ جائے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ شہری اورعوام محتاط طرز عمل اپنائیں گے اور خود کو بلاوجہ کی مشکل میں ڈالنے کا باعث نہیں بنیں گے۔
پولیس گردی کا بدترین واقعہ
ٹریفک پولیس لائنز کے سامنے معروف باچا خان چوک میں لوگوں کے آتے جاتے جس دھڑلے سے پولیس اہلکارنے آڑو مفت نہ دینے پر غریب ربڑھی بان پر تشدد کیا لاتیں مار کر پولیس وین میں ڈال کر تھانے لے گئی یہ واقعہ اگر کسی مہذب ملک میں ہوا ہوتا تو حکومت جوبھی کارروائی کرتی وہ ظاہر ہے قانون کے مطابق ہی ہوتا مگر سول سوسائٹی کا جو رد عمل سامنے آتا وہ مثالی ہوتا مگر ہمارے ہاں پولیس اور وردی پوشوں کو سو قتل بھی روا ہے اور سول سوسائٹی کی بے حسی افسوسناک ہے عامر تہکالی پر پولیس تشدد کے واقعے کو اگر کوئی سول سوسائٹی کا رد عمل گرداننے کی غلطی کرتا ہے توان کی معلومات میں اتنا اضافہ کافی ہے کہ یہ ہماری سول سوسائٹی کا نہیں بلکہ بورڈ بازار کے ان کے ہموطنوںکا رد عمل تھا جس میں بعد میں کچھ عوامی عناصر ضرور شامل ہوئے ۔ فقیر آباد کے ایڈیشنل ایس ایچ او کی حرکت کی صورت میں جو ویڈیو بنی ہے یہ اس معاشرے اور یہاں کی مثالی پولیس کا حقیقی چہرہ ہے اس طرح کے مزید واقعات عین متوقع ہیں قبل ازیں کسی پولیس اہلکار کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی ہوئی ہوتی اور اسے نشان عبرت بنا دیا گیا ہوتا تو معروف چوک پر اس طرح کا واقعہ پیش نہ آتاان کی معطلی کافی نہیں ممکن ہے کچھ دن زیر معطل رہنے کے بعد ان کی کسی ایسی بہتر جگہ پوسٹنگ ہوجائے جہاں خود جا کر پھل چھیننے کی بجائے کریٹوں کے کریٹ اس کے گھر پہنچنے لگیں کچھ بعید نہیں اور اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں ۔ یہ وہ جادو ہے جو بیچ چوراہے سر چڑھ بولتا ہے جسے روکنے کی کبھی سنجیدہ سعی دیکھی گئی ہے اور نہ توقع ہے ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا اور عوام کو اس طرح کی پولیس گردی سے کون بچائے گا حکومت سے اور پولیس چیف سے اس کی کم ہی توقع ہے سول سوسائٹی اور عوامی نمائندوں کو اب جاگنا ہوگا انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس طرح کے واقعات کی روک تھام یقینی بنانے میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے