logo 90

مشرقیات

پولیس کے بارے میں آج دو خبریں ہیں اگرایک پولیس اہلکار کی شہادت نہ ہوئی ہوتی تو مفت پھل نہ دینے پر تھانہ فقیر آباد کے ایڈیشنل ایچ ایس او کی وہ درگت ہونی تھی کہ یاد رکھتا بہر حال شہادت اور قربانی سے انکار نہیں خیبر پختونخوا کی بہادری بھی قابل فخر ہے لیکن اس طرح کے حرام خور قسم کے پولیس اہلکار صفوں میں ہوں تو حرام کا ایک قطرہ پورے حلال مال کو حرام کر دینے کا فارمولہ ہی لگتا ہے حق تو یہ ہے کہ ویڈیو دیکھ کر اس کریہہ صورت پولیس اہلکار کی حرکت پر پوری طرح عامیانہ اور بازاری زبان میں بات کی جائے مگر دقیانوسی اور برائے نام صحافتی اقدار اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں یا پولیس ہی کالی بھیڑ ہے اس کا فیصلہ ہر کسی کو اپنے تجربے اور پڑے ہوئے واسطہ کے مطابق کرنا ہے پولیس کی اس طرح کی حرکات اور قانون و مخنث نظام کی کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس عام محاورے کے مصداق نظر آتا ہے جو اردو’ ہندکو ‘ پشتو اور چترالی میں یکساں مستعمل ہے اور زبان زد خاص و عام ہے ایسا محاورہ جو اسی مخنث نظام کے ھیجڑہ پن کو واضح کرے۔ محاورے میں گرفت اور پکڑنے کا جو لفظ موجود ہے بعینہ پولیس کی حرکات اور مخنث نظام کو چیلنج ہے اس مخنث نظام نے آج تک کسی پولیس اہلکار کا کچھ بگاڑا ہوتا تو بات تھی لے دے کے ایک ایس ایچ او کے خلاف حال ہی میں کارروائی ہوئی وہ بھی اس لئے کہ ممبر صوبائی اسمبلی اور پوری خیبر پختونخوا اسمبلی مد مقابل آگئی تھی ورنہ ہمارے عوامی نمائندے بھی محولہ نظام ہی کا حصہ ہیں جوکسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ عامر تہکالی کے ساتھ کیا ہوا پولیس نے کونسی حدیں پار نہ کیں اور بھی درجنوں مثالیں موجود ہیں کسی نے پولیس کا کیا بگاڑا ہے کوئی بگاڑ کے دکھا دے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا شریف آدمی ہیں پختون اقدار کا خیال رکھتے ہیں تحمل سے کام لیتے ہیں عوامی سطح پر یہ ضروری ہے لیکن وزیر اعلیٰ صاحب پلیز آپ نواب آف کالا باغ کی طرح ایک مرتبہ اپنے سفید مونچھوں کو تائو دیں نواب آف کالا باغ بنے اور جنرل ریٹائرڈ فضل حق بنے بغیر نہ پولیس ٹھیک ہو گی اور نہ ہی کوئی اور ٹیڑھی دم سیدھی ہو گی شرافت اور پختون روایات معاشرے اور حجرے کی حد تک تو ٹھیک ہیںجہاں عوام پر ظلم کی بات آئے وہاں یہ عیب بن جاتی ہے ایک مفت خوری کا عادی توندی پولیس والے اگر دن دیہاڑے مصروف چوک میں غریب ریڑھی بان پر تشدد کرے گا تو حق تو یہ ہے اس کو بھی اسی جگہ پر لا کر اسی طرح تھپڑ اور اس کی تشریف پر اسی طرح لات رسید ہونی چاہئے یہی ا نصاف کا تقاضا ہے کہ جو جیسا کرے ویسا بھرے یہ معطلی یہ چند روزہ سزا کوئی سزا نہیں سزا دینی ہے تو اس کو گھر بھیج دیا جائے کہ وہ ٹھیلا ریڑھی لگائے تو اسے معلوم ہو کہ سیر کی کتنی پکتی ہے ۔ پولیس چیف کو عاردلانا عبث ہے اس کے عہدے کی کچھ وقعت ہوتی تو ان کا ماتحت اس طرح کے حرکت کی جرأت نہ کرتا۔ آخر میں اس کار سوار ویڈیو بنانے والے کو سلام جس کی وجہ سے ایک سیاہ چہرہ بے نقاب ہوا۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟