p613 396

وفاق اور صوبوں میں اتفاقِ رائے کی ضرورت

آئین پاکستان اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کی ضمانت دیتا ہے، اس آئینی ترمیم میں متعدد اُمور میںصوبوں کو خود مختار بنایا گیا ہے، جن میں بجلی کی پیداوار ، قومی فنانس کمیشن ، قدرتی گیس ، صوبائی قرضہ جات ، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات میں صوبائی حکومتوں کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے معاملات میں بھی صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے کورونا کی حالیہ لہر میں اضافے اور ڈیلٹا وائرس کے خطرات کے پیش نظر طبی ماہرین کے مشورے سے صوبے میں لاک ڈائون کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے، جس پر وفاقی حکومت اور وزراء کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے بلکہ اس پر سیاست کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کے لاک ڈائون کے فیصلے سے معیشت تباہ ہو گی، انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈائون کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاق کو آن بورڈ نہیں لیا۔ گورنر سندھ نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہم ایسے اقدامات کی مخالفت کریں گے جس سے عام آدمی متاثر ہو ، سندھ حکومت اگر این سی او سی ، وفاقی حکومت کی ہدایت کے خلاف صنعتوں کو بند کرے گی تو پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچے گا، انہوں نے برملا کہا کہ سندھ حکومت عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت عام آدمی کے تحفظ کو نعرہ لگا کر باہم دست و گریباں دکھائی دی رہی ہیں، فرق محض اتنا ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت عام آدمی کو جانی تحفظ فراہم کرنے کی دعویدار ہے جب کہ وفاقی حکومت اور وفاقی وزراء لاک ڈائون کے باعث ہونے والے مالی نقصان کو عام آدمی کیلئے خطرناک تصور کرتی ہے ۔ اس تنازع نے اس قدر سنگینی اختیار کر لی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی نے سندھ میں حکومت کی تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے۔ دوسری طرف اس کے جواب میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اپوزیشن متحدہ ہو تو وفاق اور پنجاب حکومت بھی گر جائے گی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سندھ حکومت نے جزوی لاک ڈائون کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں مخصوص اوقات میں مخصوص شعبے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، فارمیسی اور ضروریات زندگی کی اشیاء فراہم کرنے والی دکانوں کو استثناء دیا گیا ہے، شہریوں کی نقل و حرکت پر بھی کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے اور یہ لاک ڈائون آٹھ اگست تک ہو گا۔ لاک ڈائون کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ماہ قبل سندھ میں روزانہ کے 500کیسز رپورٹ ہو رہے تھے ، مگر اب یہ تعداد تین ہزار سے متجاوز ہو گئی ہے ، گنجان آباد ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ کراچی متاثر ہوا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق ڈیلٹا وائرس ایک شخص سے کم از کم پانچ افراد میں لازمی منتقل ہوتا ہے ۔ کراچی میں اگر دو ہزار کیسز بھی سامنے آتے ہیں اور یہ اوسطاً پانچ لوگوں میںمنتقل ہوتا ہے تو یہ بڑھتا رہے گا ، اگر اسے نہ روکا گیا تو ہسپتالوں پر دبائو بڑھ جائے گا۔ ان اعداد و شمار کے بعد ضرورت تو اس امر کی تھی کہ وفاق سندھ کو جزوی لاک ڈائون کے فیصلے میں حمایت کی یقین دہانی کراتا، اور سندھ کے فیصلے کی تحسین کی جاتی ، مگر افسوس ہمارے متفقہ امور بھی سیاست کی نذر ہو چکے ہیں، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قومی اتفاق رائے طلب معاملات کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، سندھ بظاہر انسانی جانوں کی حفاظت کی بات کر رہا ہے تو وفاق کو اس کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ شہریوں کی غفلت کی باعث ہم دوسرے اسی صورتحال سے دوچار نہ ہو جائیں جس سے پہلے گزر چکے ہیں یا جیسی صورتحال کا سامنا دیگر ممالک کر کرنا پڑا تھا،ہم سمجھتے ہیں سیاستدانوں کو اب یہ روش تبدیل کرنی چاہیے، وفاق ہو یا صوبہ عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جانے چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب