1 570

کیا عمران خان معاشی انقلاب لا سکیں گے؟

جمہوری حکومتوں کے ہاتھوں معیشت کی بہتری ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس چار یا پانچ برس کی مدت ہوتی ہے اور اتنی قلیل مدت میں معیشت میں بڑی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ملائشیا نے اس وقت ترقی کی جب وہاں مہاتیر محمد کو 22 سال تک حکمرانی کا موقع ملا۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں حسینہ واجد کی حکومت کے تسلسل کا اہم کردار ہے۔ چین اگرچہ معروف معنوں میں جمہوری ملک نہیں ہے لیکن وہاں بھی معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک نے غربت کے مکمل خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان میں جب کوئی سیاسی جماعت حکومت میں آتی ہے تو وہ سابقہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کو بھی یکسر ترک کر دیتی ہے۔ یوں انگریزی محاورے کے مطابق پھر سے پہیہ ایجاد کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ سیاسی پولرائزیشن کے ماحول میں اس کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ سابقہ حکومت کی پالیسیاں جاری رکھ کر اسے کریڈٹ حاصل کرنے کا موقع دے۔ اس کی وجہ سے ہم دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔
پاکستان کے معاشی مسائل کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔ مشرف دور میں معیشت نے بہت ترقی کی کیونکہ ایک حکمران کو کم از کم آٹھ سال کا تسلسل میسر آیا تھا۔ اس کے بعد دو جمہوری حکومتوں نے نسبتاً بہتر معاشی صورتحال کو ایسا ریورس گیئر لگایا کہ بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث پاکستان کے سر پر ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا۔ اس میں دونوں حکومتوں کی نااہلی، کرپشن اور معیشت کے متعلق سیاسی فیصلے کرنا شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے مختلف قسم کی معاشی پالیسیاں اختیار کیں جس کی وجہ سے پاکستان مالی مشکلات میں گھر گیا اور اس کا بیرونی قرضہ آسمانوں کو چھونے لگا۔
اس کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت جب کمزور ہو جائے تو اسے دوبارہ سے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایسے غیرمقبول فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو عوامی سطح پر ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ ان فیصلوں سے عوام کے لیے مشکلات بڑھتی ہیں اور یہ مشکلات پانچ سالوں میں دور نہیں ہو سکتیں۔ اگر حکمران ان پالیسیوں کو جاری رکھتا ہے تو نئے انتخابات میں اسے عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے سب سے آسان رستہ یہی ہے کہ وہ عوام کو خوش رکھنے کے لیے ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کرے جن سے وقتی ریلیف مل جائے چاہے اس کے نتیجے میں معیشت کو دوررس نقصان پہنچ جائے۔ ہم نے نوے کی دہائی کو بھی اسی وجہ سے ضائع کیا تھا جبکہ بھارت نے اسی عرصے میں بہتر فیصلے کر کے معیشت کو ترقی دینا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد 2008 سے 2018 کے دوران یہی صورتحال دیکھنے کو ملی جب ایک اور دہائی ضائع ہو گئی۔ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کا ریٹ مصنوعی طور پر برقرار رکھنے کے لیے 20 ارب ڈالرز سے زائد کا قیمتی زرمبادلہ مارکیٹ میں جھونک دیا۔ اس کی وجہ سے ایکسپورٹس پر منفی اثر پڑا جبکہ امپورٹ بل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ نون لیگی حکومت کے آخری سال میں اگرچہ اس پالیسی کو تبدیل کیا گیا مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا تھا اور معیشت کسی بڑے بحران کی جانب بڑھ رہی تھی۔موجودہ حکومت نے اس خسارے پر قابو پانے کے لیے امپورٹس پر ٹیکس لگائے جو مہنگائی کا ایک بڑا سبب بن گئے۔ اگرچہ اس میں طاقتور مافیاز کا ہاتھ بھی ہے مگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی کوششیں بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔پاکستان میں چونکہ کھانے پینے کی زیادہ تر اشیا بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہے اس لیے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ لیکن اس پالیسی کا یہ فائدہ ہوا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو گیا اور وہ سرپلس میں چلا گیا۔ معیشت کو لاحق خطرہ ٹل گیا اور کورونا وبا کے باوجود پاکستانی ایکسپورٹس بڑھ گئیں، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے اور شرح نمو میں بڑا اضافہ ہوا جس نے کئی ماہرین معیشت اور عالمی اداروں کی پیشگوئیوں کو غلط ثابت کر دیا۔ معاشی میدان میں جو خوشخبریاں مل رہی ہیں، ان کے اثرات عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ معاشی کامیابیوں کے نتیجے میں غربت میں کمی اور مڈل کلاس کی تعداد میں اضافہ ایک طویل عمل ہے۔ یہ عمل صرف پانچ برسوں میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے کم از کم مزید کئی برس کا عرصہ درکار ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ نئے انتخابات کے نتیجے میں اگر کسی دوسری جماعت کو حکومت ملتی ہے تو وہ اپنی نئی معاشی پالیسی شروع کر دے گی جس کی وجہ سے ایک بار پھر نیا سفر شروع ہو گا اور ہم اسی طرح دائروں میں ہی گھومتے رہیں گے۔ معاشی مسائل کا بہترین حل تو یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں میثاق معیشت کر لیں جس کے تحت بنیادی اصلاحات اور پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنے کا فیصلہ کیا جائے۔ لیکن سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں