p613 397

پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ

صوبائی دارالحکومتپشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی تازہ لہر تشویش کا باعث امر ہے امر واقع یہ ہے کہ پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں گزشتہ کچھ عرصہ سے عام لوگوں کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے ۔جمعہ کے روز حیات آباد پشاور میں پولیس موبائل وین پر ہینڈگرینیڈ حملہ کیا گیا جس سے ایک اہلکار شہید ہوگیا توگزشتہ رو ز دائودزئی میں پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنایاگیا۔ اس سے قبل پشاور، مردان اور دیگر اضلاع میں بھی پولیس اہلکاروں کومختلف واقعات میں قتل کرنے کی وارداتیں پیش آئی ہیںاگرچہ پولیس اہلکاروں کی مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں باہمی تنازعات بھی شامل ہیں تاہم حالیہ لہر سے اس امر کا خدشہ ہے کہ یہ کسی منظم گروہ کی کارستانی ہوسکتی ہے جس کا مقصد حالات کو خراب ظاہر کرنا اورعوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے ۔اس طرح کے واقعات میں بعض بیرونی عناصر اور ان کے ایجنٹوں کا ملوث ہونا بعید نہیں سرحد پار کے حالات کے باعث صوبے میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات کے بھی خدشات ہیں ہر دوقسم کے حالات اور عوامل کے پیش نظر جہاں پولیس کو خود حفاظتی کے لئے مستعد اورچوکس ہونے کی ضرورت ہے وہاں عوام کے تحفظ ‘ امن و امان ہر قیمت پر بحال رکھنے اور شرپسند عناصر کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری پر مزید توجہ کی ضرورت ہے پولیس کو نشانہ بنا کر معاشرے میں خوف کی فضاء پیدا کرنا سازش ہے جہاں پولیس ہی غیر محفوظ ہو وہاں عوام کے تحفظ کا سوال اٹھنا اور عوام میںتشویش کی لہر اٹھنا فطری امر ہو گا۔ پولیس حکام کو ان واقعات کی تحقیقات کے بعد صورتحال بارے عوام اور میڈیا کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ہر قتل کو ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری و دہشت گردوں کی کارروائی قرار دینابھی درست نہ ہوگا۔جب تک سارے عوامل کی تحقیقات کے بعد حتمی نتیجہ اخذنہ ہو تب تک خوف و ہراس کی فضا میں اضافہ اور عوامی تشویش بڑھے گی۔جس کے تدارک کے لئے منظم حکمت عملی اختیارکی جائے۔
رنگ روڈ کی تکمیل میں تاخیر در تاخیر
خیبر پختونخوا حکومت نے رنگ روڈ کے باقی ماندہ حصہ کی تکمیل کیلئے محکمہ بلدیات کے مجوزہ فنڈز پر نظر ثانی اور منصوبے پر10اعتراضات لگاتے ہوئے اسے فی الفور ختم کرتے ہوئے منصوبے کو شروع کرنے کیلئے اقدامات تیز کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ایک مرتبہ قبل بھی اس طرح کی ہدایت کی گئی تھی اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جا سکا موجودہ ہدایات کی ضرورت کیوں پیش آئی اور قبل ازیں ان امور کا جائزہ لیکر فیصلے کیوں نہیں کئے گئے جیسے سوالات اس لئے فطری امر ہیں کہ حکومت ایک جانب رنگ روڈ کے تعمیراتی کام کی تکمیل کی تاریخیں دے رہی ہے اور دوسری جانب منصوبے میں تبدیلیاںکی جارہی ہیں ملک میں پہلے ہی منصوبے اور مقررہ وقت پر کسی منصوبے کی تکمیل کی کم ہی روایت ہے ایسے میں مزید جائزہ اور تبدیلی کے علاوہ فنڈز اور لاگت پر نظرثانی کا طویل عمل اختیار ہونے پر کام کی تکمیل میں تاخیرکے خدشات مسلمہ ہیں بہرحال جوبھی ہو کم از کم اب اس امر کی کوشش ہونی چاہئے کہ کام میں کم سے کم رکاوٹ اور تاخیر کی نوبت آئے کوشش ہونی چاہئے کہ رنگ روڈ کی تکمیل جلد سے جلد ہوسکے ۔
چراغ تلے اندھیرا
خیبر پختونخوا میں مون سون کی شجر کاری مہم کیلئے پودوں کی خریداری میں عین وقت پر تذبذب سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اس حوالے سے حکام کی تیاری اور دلچسپی نہ ہونے کے برابررہی ہوگی۔ ورنہ اس طرح کی نوبت نہ آتی ہمارے نمائندے کے مطابق پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے تمام بلدیاتی اداروں کو اپنے فنڈز سے پودے خریدنے کی ہدایت کردی جبکہ ضلعی انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے بھی ایک کروڑ20لاکھ روپے پودوں کی خریداری کیلئے مانگ لئے۔ ذرائع کے مطابق پشاورکی ضلعی انتظامیہ نے پشاور کے تمام 4ٹائونز کو شجر کاری مہم کیلئے موزوں مقامات کی تلاش کا ٹاسک سونپا تھا تمام ٹائونز نے موزوں مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کردیا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے موزوں مقامات کی فہرست صوبائی حکومت کو ارسال کردی ہے جس کے مطابق پشاور میں 73ہزار850پودے لگائے جائیں گے پودوں کی خریداری اور شجرکاری کی تیاری اب تک مکمل ہونے کی صورت میں ہی ہدف کا حصول ممکن تھا یہاں پر اب تک اس حوالے سے فنڈز اور وسائل ہی کا علم نہیں اب اگر ہنگامی بنیادوں پر بھی اس کا انتظام کیا جائے تو بھی شجرکاری کا وقت گزرنے کا خدشہ ہے علاوہ ازیں بغیر تیاری کے شجرکاری کی سعی کی بھی جائے تو پودوں کا حصول اور ان کے لگانے کے لئے کافی وقت درکار ہوگا پھر ان کی نگہداشت وتحفظ کے حوالے سے بھی انتظامات کی ضرورت ہو گی حکومت کو اس تساہل کا نوٹس لینے اور ذمہ دار عناصر سے استفسار کرنی چاہئے اور آئندہ کے لئے اس حوالے سے جامع لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عملدرآمد کی واضح ذمہ داری دی جائے ۔
تعلیمی بورڈز کے خلاف شکایات
خیبرپختونخوا کے تمام تعلیمی بورڈز میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ناقص انتظامات کی شکایات پر محکمہ ابتدائی تعلیم نے تمام تعلیمی بورڈز کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم کو شکایات ہیں کہ حالیہ امتحانات میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ کی گئی ہے سپروائزری سٹاف کے حوالے سے اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق شکایات کے علاوہ امتحانی ہالز میں امتحانی عملہ کے خلاف کرپشن اور ناقص انتظامات کی شکایات موصول ہوئی ہیںتعلیمی بورڈز طلبہ سے ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں علاوہ ازیں تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن فیس اور حکومتی خزانے سے وسائل کی فراہمی ان اداروں کو پرکشش ملازمت کے مواقع کا باعث بنا دیتے ہیں اس کے باوجود ان بورڈوں کی کارکردگی اور ناقص انتظامات کسی سے پوشیدہ امر نہیںجن امور کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی جامع تحقیقات اور ذمہ داری کے تعین کے بعد سخت کارروائی اور آئندہ کے لئے اصلاح احوال یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی