p613 397

مشرقیات

ہم سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں ،ایسے میں عقل نام کی چیز سے ہمارا کیا واسطہ،جتنے بندے ہم نے اس بازی میں عالم بالا کو روانہ کئے ہیں ان کا شمار کر لیں تو آبادی کو کم کرنے کی کوششوں کا ہمیں عالمی چیمپئین تسلیم ہونا چاہئے ،آپ کہیں گے ادھر طورخم پار والے ہم سے زیادہ تیز ہیں۔بجا فرمایا ،تاہم ادھر کی مارا ماری خانہ جنگی کا نتیجہ ہے ،یہ خانہ جنگی نہ ہو تو وہ سر دھڑ کی بازی لگانے میں ہمارا مقابلہ کر ہی نہیںسکتے۔
آپ نے الطاف حسین حالی کی مسدس حالی پڑھی ہو تو وہ قبل ازاسلا م کے عرب سماج کی اسی قسم کی سر دھڑ کی بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان بازیوں کو کہیں پانی پینے پلانے سے جوڑا گیا تو کہیں گھوڑا آگے بڑھانے کی ضد سر کو دھڑ سے جدا کرنے کا شاخسانہ بنی ،ایسے ہی حالی مرحوم نے دیگر جاہلانہ عادتوں کا ذکر کر کے ہمیں شاعرانہ پیرائے میں اسلام سے قبل کے عرب سماج سے روشناس کرایا تھا۔اب صدیوں بعد دیکھ لیں ،اسلام کی تمام تر تعلیمات کا ہم پر کیا اثر ہوا ہے ،جہاں سے چلے تھے وہیں آکر کھڑے ہو گئے ہیں ،قیل وقال میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ،عمل کا کوئی مقام آئے تو” تھم اے راہرو شاید کوئی مشکل مقام آیا”کہتے ہوئے عمل کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں۔
جہالت کے ایک اور دور عظیم میں ہم جی رہے ہیں،لڑائی جھگڑے کے لئے اب تو کسی بہانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔پانی پینے پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پر مارنے مرنے پر تل جانے والوں کو ہدایت ملی تو وہ رہنما بن گئے، سوال یہ ہے کہ ہم اپنی ہدایت کا سامان کیوں نہیں کر پارہے ؟چراغ تو روشن ہے ہم کیوں روشنی سے منہ موڑے کھڑے ہیں ،اندھیر نگری جوپٹ راج کی اتنی منہ زور خواہش کیوں ہے کہ جب چاہا جہاں چاہا کسی کو بھی سرعام گولیوں سے بھون ڈالا۔تنازعات کی اتنی بھر مار تو جاہلانہ دور میں بھی نہیں تھی ، ہم اس سے گئے گزرے ثابت ہو رہے ہیں۔چند گز زمین اور پیسہ ہی وجہ تنازعہ نہیں رہا ،بندہ مارنے کے لئے ہم نے اپنا اپنا قانون نافذ کیا ہوا ہے۔معمولی سی کوئی بات ناگوار گزرے تو بات کرنے والے بندہ اس سے زیادہ ناگوار گزرتا ہے ،آپس کی دشمن داریوں کا جائزہ لیں توزیادہ تر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے خونی رشتے دار ہی ہوں گے، اس لئے کسی ستم ظریف نے ہمارا یہ حال دیکھ کر رشتہ دار کو دشمن دار کا مترادف ہی قرار دے ڈالا تھا۔تو جناب اس جاہلیت کے دور دورہ میں کوئی امید کی کرن ہے کہ نہیں؟
قانون کا نفاذ کرنے والے سر دھڑ کی بازی کو روک نہیں پارہے ،ثناخوان تقدیس مشرق کے ترانے بھی ہو گئے پرانے۔ایک ہی راستہ ہے جہالت کے اس دور سے دور بھاگنے کا،کہ قانون کو ہا تھ میں لینے کی بجائے خود کو قانون کے حوالے کر دیں، مگر ہم یہ راستہ بند کرنے کے لئے دیوار کیوں کھڑی کر رہے ہیں؟

مزید پڑھیں:  واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے