p613 398

مہنگائی میں اضافہ در اضافہ

ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 8.4فیصد تک پہنچ گئی، ماہ جولائی میں مجموعی طورپرمہنگائی میں1.3فیصد کا اضافہ ہوا۔ادارہ شماریات نے ماہانہ مہنگائی کے اعدادوشمارجاری کردیے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ ماہ جولائی میں مجموعی طورپرمہنگائی میں1.3فیصدکا اضافہ ہوا اور مجموعی مہنگائی کی شرح 8.4فیصد تک پہنچ گئی۔ادارہ شماریات کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 8.7فیصد اور دیہی علاقوں میں8فیصد رہی۔ملک میں مہنگائی کی بڑھتی شرح حکومت اور عوام دونوں کیلئے لاینحل مسئلے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے عوام مہنگائی پر واویلا ہی کرنے پر اکتفا کئے رکھتے ہیں کسی چیز کے مہنگا ہونے پر صارفین کی جانب سے اس کے استعمال میں کمی لانے اور بائیکاٹ کا تو رواج ہی نہیں ملک میں صارفین کی کوئی ا نجمن نہیں جبکہ حکومت نہ تو مارکیٹ میں مسابقت اور کھلی منڈی کا اصول ا پنانے کی پالیسی اختیار کرتی ہے اور نہ ہی اشیاء کی قیمتوں میں بلاوجہ اضافے کے عمل کو انتظامی اقدامات سے کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دعوے اور وزیر اعظم کی سطح تک کے اقدامات کے احکامات کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آتا مہنگائی کی وجوہات کا جائزہ لیکر اگر اس مناسبت سے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے تو موزوں ہو گا ملک میں دیگر وجوہات کے علاوہ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے۔ جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے دس گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔ درمیان سے آڑھت کو نکال دیا جائے تو صارف کو سستی چیزیں مل سکتی ہیں۔دوسری جانب پاکستان میں ہر محکمہ اور ادارہ خطرناک حد تک کرپشن میں مبتلا ہو چکا ہے۔ روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے اس معاشی افراتفری میں اشیا کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں روکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔ان تمام عوامل کا جائزہ لینے اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرکے اس پر کاربند ہوا جائے تو مہنگائی کی تیز ہوتی لہر پر قابو پایا جا سکتا ہے یا کم ازکم اس کی شرح میں کمی لانا ممکن ہوگا۔
جشن آزادی ‘ایک توجہ طلب امر
جشن آزادی شایان شان طریقے سے منانے کے لئے شہر بھر میں پرجوش ا نداز میںتیاریاںگلی کوچوں ‘ بازاروں ‘ سڑکوں کے کناروں پر قائم عارضی دکانوں میں قومی پرچموں ‘ بیجز ‘ سبزہلالی پرچم کی مناسبت سے بچوں اور بچیوں کے ملبوسات کی فروخت سے ایک سماں بندھا ہوا ہے ۔یوم آزادی جوش و خروش سے منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے وطن عزیز میں چودہ اگست کا دن جس بھر پور اندازسے منایا جاتا ہے اس کی تیاریاں آخیر جولائی سے شروع ہوجاتی ہیں اور دس اگست تک عروج کو پہنچ جاتی ہیں اس سال بھی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیںجشن آزادی کے موقع پر قومی پرچم کی چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں اور دیگر چیزوں خاص طورپر جھنڈوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے پر بعض اوقات کم توجہ دی جاتی ہے جس کے باعث یہ چیزیں جگہ جگہ پڑی ہوتی ہیں جو ہمارے قومی وقار کے منافی امر ہے کوشش کی جائے کہ قومی پرچم کا احترام پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جائے جس جس چیز پر قومی پرچم بنا ہو اسے یوم آزادی گزرنے پر احترام کے ساتھ سنبھال کر رکھا جائے جھنڈیوں کی لڑیاں بھی اتار لی جائیں تاکہ ملک کے وقار کی ان علامتوں کی بے حرمتی اور ناقدری نہ ہو۔
متاثرین کو معاوضہ آخر کب ملے گا؟
جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات کے دوران تباہ ہونے والے مکانات کے متاثرہ مالکان کو معاوضے کی عدم ادائیگی کی شکایات قابل توجہ امر ہیں اخباری اطلاعات کے مطابق جنوبی وزیرستان تحصیل مکین اور تحصیل لدھا کے علاقے شمیرائی ، سام ، شپیشتین ، سغرزائی سرنگخیل ، سیگہ ، میدان ، سلطانہ ، کڑم گارڑائی ، حلال لگاڈ اور دیگر گائوں کے سروے کو ہوئے پورے تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آپریشنوں سے متاثرہ مکانوں کے مالکان کو معاوضہ چیک نہیں مل سکے۔متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم متعلقہ حکام کی رشوت ستانی پرانہوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا اب بھی ان کوتحفظات ہیں جن کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ معاوضہ کی مزید تاخیر کئے بغیر ادائیگی کی جائے چیک تقسیم کرنے کا عمل شفاف بنایا جائے اور حقداروں کی کسی طور حق تلفی نہ ہونے دی جائے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟