p613 399

مشرقیات

بیوی اور محبوبہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ بیوی کی سالگرہ آپ کو یاد نہیں رہتی اور اور محبوبہ کے جنم دن سے گویا آپ جنم جنم کے شناسا ہوتے ہیں،کچھ شادی شدہ حضرات جو متبادل انتظام کے چکر میں ہوتے ہیں اپنی شادی تک کی سالگرہ کو بھلائے اس روز بیوی کے سامنے منہ پھلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔بقول شخصے ایک ایسے ہی ازدواجی رشتے سے تنگ آئے شخص کے سامنے بیوی نے کریلے پکا کر رکھ دئے تو موصوف نے کہا یہ کیا ہے ؟بیوی ترنت سے بولی ”ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا”۔
شوہر حضرات جب اس منصب پر فائز نہیںہوتے تو سوائے شادی کے انہیں کچھ اور نہیںسوجھتا، ایک وقت تھا جب لڑکے بالے جس لڑکی یا خاتون کو شریک حیات کے طور پر پسند کرلیں اس سے شادی کے لئے ایک سے ایک بڑھ کر ڈائیلاگ ،فلمی گانے اور نئے و پرانے شاعروں کی رومانی غزلیں یاد کرلیتے تھے ۔خواتین اپنی تعریف میں پھولے نہیں سماتیں، وہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ تعریف کی تعریف یہ ہے کہ اسے عورت کھا کر ہمیشہ جوان رہتی ہے اور مرد کھلا کر بہت جلد بوڑھا ہو جاتا ہے۔شادی کے چند سال بعد ہی حافظے کی کمزوری کے باعث پھر شوہر حضرات کی زبان پر اپنی منکوحہ کے لئے ایک آدھ مصرعہ بھی نہیں چڑھتا۔بندہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ غالب سے لے کر احمد فراز تک کے کل کلام کو حفظ کرنے والے آخر اس مقام تک کیسے آجاتے ہیں جہاںانہیں بیوی نے کوئی طعنہ دینا ہوتو کاہل اور نکھٹو ہی خطاب میں پاتے ہیں۔حالانکہ یہ وہی حضرت تھے جو شادی سے قبل چاند تارے آسمان سے توڑ لانے کا دعویٰ کر تے نہیں تھکتے تھے۔ ایسے ہی ایک شوہر سے جب بیوی نے شکوہ کیا کہ شادی سے قبل آپ بڑے رومانٹک تھے۔میرے بالوں ،لب ورخسار ،قدوقامت حتیٰ کہ چال چلن پر بھی آپ کے پاس نہ ختم ہونے والا اشعار کا ذخیرہ تھا اور اب آپ کے منہ سے کبھی میں دو جملے تعریف کے نہیں سنے،شکوہ سن کر شوہر نے جواب شکوہ عرض کیا کہ”شادی سے پہلے میں شاعر تھا اب شوہر ہوں ،شادی سے قبل تم سنتی تھیں اب سناتی ہو۔”اس پر منکوحہ بولی:” کیا ہر شاعر نے شادی کے بعد شاعری سے توبہ کر لی تھی؟”شوہر کا جواب تھا: ”نہیں !مگر کسی ایک کا بھی بتائو جس نے بیوی کی شان میں غزل خوانی کی ہو؟”
پرانے زمانے کی یہ شاعرانہ وارداتیں اب متروک ہیں ،اب شادی کے خواہش مند ڈیجیٹل عاشق صادق ہیں،صبا ہو یا کوئی غزالہ اسے غزل سننے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی ہوتی ہے کہ عاشق نامدار کی جیب میں یومیہ جیب خرچ میں سے اس کا کتنا حصہ یعنی ایزی لوڈ ہے۔بات شادی تک پہنچے نہ پہنچے مستقبل کے شوہر کی فیاضی یا پھر کنجوسی معلوم ہو جاتی ہے اس کے لئے صبا دن بھر درجن بھر امیدواروں کو آزماتی پھرتی ہے،ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جو کچھ نہ کچھ ایزی لوڈ کر کے مستقبل کے سہانے سپنے صبا کے سنگ نہ دیکھتا ہواور جب صبا ہا تھ آجائے تویہ سپنے چکنا چور ہو جاتے ہیں۔اس لئے کہتے ہیں شادی وہ لڈو ہے جس نے کھایا وہ بھی بچھتایا جو محروم رہا وہ بھی بچھتایا۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام