p613 400

مشرقیات

ہم پاکستانی بھی بڑی عجیب قوم ہیں اپنی اچھی چیزیں چھوڑ کر پرانی پر نظریں گاڑ دیتے ہیں اپنی اپنی ہوتی ہے اور پرائی پرائی مگرہم اس میں بھی عیب اور برائی نہیں دیکھتے دیکھتے رہ جاتے ہیں اپنی کو نہیں دیکھتے اور پرائی سے نظریں نہیں ہٹاتے واقعی ہمیں امپورٹیڈ چیزوں کی بڑی طلب رہتی ہے۔ہم بڑے فخر سے کسی چیز کے بارے میں کہتے ہوتے ہیں کہ باہر کا مال ہے چینی مال تو عام ہو گئی ہے عموماً چینی مال کی کوالٹی اچھی نہ ہونے کی بھی شکایات ہیں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک پٹھان نے چینی لڑکی سے شادی کی ایک بچہ ہوا اور لڑکی مر گئی دوست پرسہ دینے آئے ایک نے بڑی عجیب بات کی کہ چینی مال بس اتنا ہی چلتا ہے ۔ ہمیں باہر کے مال کی طلب کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ وزیراعظم سے لیکر وزیر خزانہ تک باہر سے منگوا لیے ہیں اور بھی وزیر باتدبیر مشیر وغیرہ وغیرہ باہر سے بلاتے ہیں جو مدت اقتدار اپنی بولی بولتے ہیں اور اختتام اقتداراڑن چھو۔ باہر کی ہر چیز کے ہم دلدادہ و دیوانے ہیں تبھی تو باہر کی لال لگام گوری اپنے دیس کی ناکتخدا پر ترجیح پاتی ہے ۔باہر کی چیزوں کے استعمال کا ہمیں ایسا چسکا پڑا ہے کہ سر سے پیر تک لباس و جوتے ہاتھ میں موبائل جیب میں ہوں سے تو ڈالر وریال ہر چیز اغیار کی بھلی لگتی ہے ہم اس قدر بیگانہ دوست ٹھہرے کہ کیا بتائیں ہماری اسی عادت نے تو ہمیں اغیار کا غلام بنا رکھا ہے قرضہ تک آئی ایم ایف سے لیتے ہیںاس دل پھینک قسم کی طبیعت نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ فرنگی کے دیوانے بنے پھرتے ہیں فرنگی نے پتلون پھاڑ دی تو ہم نے بھی ایسا ہی کیا فرنگن نے بکنی پہنی تو ہم نے بھی شرم و حیا اتار پھینکنے میں عار محسوس نہ کیا ہمیں تو بیماریوں کے نام بھی ا نگریزی ہی میں سمجھ آتی ہے البتہ کتوں کے نام انگریزی میں رکھنا بہر حال اچھی بات ہے ہم تو مرغی کو بھی چکن کہنے پر بضد ہیں محاورہ حرف بحرف ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا مگر ہم ہنس ہنس کر کوے کی چال چل رہے ہیں اپنی چال تو یاد ہی نہیں اغیار جواتنی چالیں چل کر ہم سے ہماری چال بھلا بیٹھے کبھی ہمیں اس کا احساس ہی نہیں یہ جو انگلش فلمیںدیکھنے کا جو رواج چل پڑا ہے اس نے تو نوجوانوں کو تو کیا بوڑھوں کوبھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ جوانی میں اب بڑھاپا دیکھنے کو ملنے لگا ہے بچپن رہی نہیں بچپن میں بلوغت ہونے لگی ہے بندہ بالغ ضرور ہو جاتا ہے مگر عاقل بالغ نہیں بلکہ صرف بالغ ہونے لگا ہے عقل جو ایک مرتبہ گھاس چرنے گئی تھی ابھی تک نہیں لوٹی ہم اس طرح کے چال بدلتے اور دوسروں کی رنگ میں خود کو رنگتے گئے تو جانے ہمارا کیا ہو گا جوجس کی پیروی کرے گا اس کا حشر بھی اپنی اس محبوب و محبوبہ کے ساتھ ہو گا خوش نہ ہو یہ دنیا میں نہیں آخرت میں ہونا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی