4 434

اعصاب شکن سیاسی کشمکش کا اختتام

آزادکشمیر میں ایک سال سے زیادہ مدت سے جاری ”کون بنے گا وزیر اعظم” ؟کی اعصاب شکن سیاسی جنگ بدھ کی دوپہر اس وقت اختتام کو پہنچی جب اسلام آباد سے مظفرآباد آنے والا کریم کلرکا بند لفافہ کھل گیا اور اس میں آزادکشمیر کے بارہویں وزیر اعظم کے لئے کسی حد تک ایک غیر متوقع نام ” سردارعبدالقیوم نیازی ” درج تھا ۔عبدالقیوم نیازی ان چار ناموں میں شامل نہیں تھے جن پرچند دن سے سوشل میڈیا میں ہنگامہ خیز بحث اور قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ان چار ناموں میں پی ٹی آئی کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری،سردار تنویر الیاس،خواجہ فاروق احمد اور اظہر صادق شامل تھے ۔چند دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے جن دو ارکان اسمبلی کو خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہنگامی طور پر مظفرآبادسے اسلام آباد بلایا تھا ان میں عبدالقیوم نیازی بھی شامل تھے۔اس بلاوے سے کئی کا ماتھا ٹھنکا تو ضرور تھا مگر بات سنی ان سنی ہو گئی تھی ۔ اس سے پہلے انتخابی مہم کے جلسے سے جب عمران خان پونچھ ڈویژن کے امیدواروں کے نام پڑھ رہے تھے تو عبدالقیوم نیازی کا نام آتے ہی وہ لمحہ بھر کوٹھٹھک کر رہ گئے تھے اور پھر مسکراتے ہوئے کہا تھا میں حیران ہوں یہ نیازی یہاں کیسے آیا ؟ہم لوگ ہرجگہ پھیل گئے ہیں۔عمران خان نے تو یہ بات پٹھان نیازی سمجھ کر کی تھی مگر حقیقت میں عبدالقیوم نیازی پٹھان نہیں بلکہ دومیلی مغل ہیں اور نیازی ان کا تخلص ہے جو انہیں سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے دیا ہے ۔سردار عبدالقیوم خان آزادکشمیر کے وزیر اعظم تھے تو عبدالقیوم نیازی کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ ان کی کابینہ کے رکن اور عبدالقیوم نیازی ضلع کونسل کے رکن تھے ۔سردار عبدالقیوم خان نے دفتری معاملات میں اپنے ناموں کی تفریق کے لئے انہیں نیازی تخلص اپنانے کو کہا اس طرح نیازی ان کے نام کا حصہ بن گیا ۔ آزادکشمیرکی وزرات عظمیٰ کے لئے اصل جوڑ بیر سٹر سلطان محمود اور تنویر الیاس کے درمیان پڑ اتھا اور کشمکش کا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے میں نہیں آرہا تھا۔بیرسٹر سلطان محمودپارٹی کے صدر ہونے کی بنیاد پر اس منصب کے امیدوار تھے تو تنویر الیاس الیکٹبلز کو شامل کرنے کی کارکردگی کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کے طلب گار تھے جبکہ عمران خان سرپرائز دینے کی صلاحیت اور عادت کے عین مطابق سارے کارڈز سینے سے لگائے ہوئے تھے ۔ وزارت اعظمیٰ کے امیدوار اپنی طاقت او صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں میراتھن جاری رکھے ہوئے تھے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ عمران خان کون سا پتا پھینکنے والے ہیں ۔یوںوزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی محنت بس ہوائوں میں تیر چلانے کے مترادف تھی۔انتخابی مہم کے دوران بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ اور نعرے کشمکش کا ماحول بنائے رہے اور صاف نظر آرہا تھا کہ پی ٹی آئی میں وزرات عظمیٰ کے دوسرگرم اور کئی خاموش امیدوار موجود ہیں ۔ انتخابات سے پہلے وزارت عظمیٰ کے نعروں پر پابندی لگوانے کی کوشش بھی ہوئی مگر خواہشات اور جذبات کا پیمانہ تب بھی وزیر اعظم تنویر الیاس اور وزیر اعظم بیرسٹر سلطان کے نعروں کی صورت چھلکتا رہا ۔یوں لگ رہا تھا کہ یہ کشمکش کسی فیصلہ کن موڑ کسی تیسرے نام کے لئے زمین ہموار کرنے اور فضاء بنانے کا باعث بنے گی۔اسی کشمکش کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے موزوں اورمناسب امیدوار کی تلاش کا سفر جاری رکھا ۔بیرسٹر سلطان محمود اور تنویر الیاس کی کشمکش نے سٹیج تیسرے کردار اور نام کے لئے ہموار کیا ۔عمران خان کے لئے بھی آزادکشمیر کی یہ صورت حال صوبوں اور گلگت بلتستان سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہو کر رہ گئی تھی۔برادریوں اور علاقوں کی بنیاد پر قائم سول سٹرکچر میں تمام نزاکتوں کا لحاظ ایک مشکل صورت حال کو جنم دے رہا تھا۔آزادکشمیر کے عوام اور سیاسی کارکن بھی سانس روک کر اسلام آباد سے آنے والا لفافہ کھل جانے کا انتظار کرتے رہے ۔سوشل میڈیا پر رواں کمنٹری ہوتی رہی اور امیدواروں کے حامی چشم ِتصور سے اپنے اپنے ممدوحین کو کبھی سیکورٹی فراہم ہوتے دیکھتے رہے اور کبھی نام فائنل ہونے کا مژدہ سناتے رہے ۔ڈھول تاشے بھی بجتے رہے کئی روز تک آزادکشمیر میں ایک اعصاب شکن کھیل جا ری رہا اور اور آخر کار بند لفافے سے سردارعبدالقیوم خان نیازی کا نام برآمد ہوا اوریوں قیاس آرائیوں ، پیش گوئیوں،افواہوں ،زائچوں کا طوفان تھم گیا ۔عبدالقیوم خان نیازی عباس پور کے ایک معروف سیاسی گھرانے کے تجربہ کار فرد ہیں۔جنہوں نے اپنا سیاسی سفر بلدیاتی اداروں سے شروع کیا اور اسمبلی اور کابینہ تک جاپہنچے ۔ان کے بڑے بھائی مرحوم سردار غلام مصطفی بھی سیاسی میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے اور نوے کی دہائی میں وزیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق مقبوضہ پونچھ سے ہے اور 1947میں ان کا گھرانہ ہجرت کرکے آزادکشمیر منتقل ہوا۔ان کا حلقہ انتخاب کنٹرول لائن کے قریب اور بھارتی فائرنگ سے متاثرہ حلقوں میں شامل ہے اور تیتری نوٹ کا مشہور کراسنگ پوائنٹ بھی اسی حلقے میں شامل ہے۔یہ آزادکشمیر کے پسماند ہ اور دور دراز علاقوں میں شامل ہے اور بھارتی فائرنگ کی وجہ سے یہاں سیاحت اور انفراسٹرکچرکی سہولیات کی کمی واضح طور پر محسوس کی جاتی رہی ہے۔عبدالقیوم نیازی آزادکشمیر کے روایتی حکمران اشرافیہ اور گھرانوںکا حصہ نہیں ۔اس لحاظ سے یہ آزادکشمیر میں ایک نئی سیاسی روایت کا آغاز ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''