بدلتے حالات کے بارے میں اہم مشاورت

سرحد پار کے حالات یہ ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں تیزی آگئی ہے نمروز کی دارالحکومت پرقبضہ کرلیاگیاہے جبکہ عبدالرشیددوستم کے مضبوط گڑھ میں بھی نواضلاع کاقبضہ چھین لیا گیا ہے۔دوسری جانب طالبان جنگجوئوں نے جوزجان میں رشید دوستم کے عسکری گروہ سے گھمسان جنگ کے بعدبارہ میں سے نواضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا اور اب صوبائی دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں جہاں ترکی سے حال ہی میں رشید دوستم پہنچے ہیں۔اسی طرح صوبے ہلمند کے بھی اکثریتی اضلاع میں بھی طالبان نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور اب صوبائی دارالحکومت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ جلد ہی ہلمند اور جوزجان کے بھی طالبان کے مکمل کنٹرول میں جانے کا خطرہ ہے۔ صوبے قندھار اور ہرات میں طالبان پہلے ہی مضبوط ہیں اور اکثریتی علاقے کا قبضہ حاصل کرچکے ہیں، اس کے علاوہ اسپین بولدک میں بھی عملداری قائم کرچکے ہیں اور افغان حکومت کابل کے علاوہ چند ایک علاقوں تک سمٹ چکی ہے۔دریں اثنا طالبان نے جمعے سے پاکستان، افغانستان کی سرحد کو سپین بولدک کے مقام پر ہر قسم کی نقل و حرکت کے لیے بند کر دیا ہے اور آمدورفت کے لئے خود ساختہ شرط عائد کر دی ہے ان حالات کے تناظر میں وزیر اعظم کاعمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا پشاور کور ہیڈکوارٹر کا دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جہاںوزیر اعظم کو سیکورٹی کی موجودہ صورتحال ‘ جاری اسٹیبلائزیشن آپریشنز اور پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے سے متعلق بریفینگ دی گئی۔پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر سیکورٹی کی بدلتی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ افغانستان سے آنے والی اطلاعات سے روزانہ کی بنیاد پر طالبان کی پیش قدمی اور افغانستان میں اقتدار پر قبضے کے قریب ہونے کا عندیہ ملتا ہے طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کے نتائج اچھے نہیں ہوتے جوملک میں خانہ جنگی اورعدم استحکام کا باعث ہوتے ہیں بہرحال افغانستان میں کس کی حکومت قائم ہوتی ہے اور کون محروم اقتدار ہو کر جلاوطنی اختیار کرتا ہے یہ پاکستان کا درد سر نہیں پاکستان نے پہلی مرتبہ واضح طور پر جس افغان پالیسی کا بار بار صریح الفاظ میں اعادہ کیا ہے اس پر افغان حکومت کی جانب سے شک کا اظہار اور الزامات سے قطع نظر افغانستان کے حوالے سے پہلی مرتبہ حکومت نے جامع ملکی مفاد اور عوام کے لئے قابل قبول پالیسی نہ صرف تشکیل دی ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہو چکا ہے جو باعث اطمینان امر ہے دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پا کستان کا اب افغان طالبان سے روابط اور اثر ورسوخ دونوںکمزور اور واجبی ہیں ان حالات میں پاکستان کی عسکری وسیاسی قیادت کا افغانستان میں ممکنہ تبدیلی اور اس سے پیدا شدہ سرحدی اور ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پرپاکستان میں پناہ کے خواہشمندوں کا دبائو قابل غور اور بروقت حکمت عملی مرتب کرنے اور فیصلوں کا باعث امر ہے جہاں تک پاک افغان سرحد پر طالبان کیجانب سے آمدورفت کی اپنی شرائط کا تعلق ہے پاکستان ان شرائط کو ماننے کا پابند نہیں اور نہ ہی طالبان کی افغانستان پر حکومت ہے اپنے علاقوں میں وہ جو بھی چاہیں کریں پاکستان کو کسی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں پاکستان اپنے معاملات سے آگاہ اور ان کی حکمت عملی واضح اور مسلمہ ہے جس پر عملدرآمد میں پاکستان کے مفادات اور سلامتی کے تحفظ کا تقاضا ہے۔آمدہ دنوں میں بدلتی صورتحال بارے اس اہم دورہ پشاور میں غیرمعمولی مشاورت ہوئی ہو گی جس کے مظاہر جلد واضح ہونے کی توقع ہے پاکستان نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے باربار اعادہ کیا ہے اسی پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے معروضی صورتحال میں اس پالیسی پرمداومت ہی ملکی مفاد کا تقاضا ہے اس بارے سخت حالات اور مشکلات اور کسی بیرونی دبائو جو بھی صورتحال پیش آئے اس کا مقابلہ کیا جائے اور پاکستان افغانستان کی صورتحال میں اپنی پوزیشن بہرصورت برقرار رکھے اور اس میں تبدیلی لانے اور کسی مصلحت کا شکار ہونے سے گریز کیاجائے۔پاکستان کواس صورتحال کی سبھی جہتوں کا ادراک کرتے ہوئے قومی حکمت عملی میں اولوالعزمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ افغان صورتحال کے منفی اثرات کم سے کم پاکستان کو متاثر کر سکیں۔ افغانستان کی صورتحال میں جو واضح تناو پایا جاتا ہے پاک افغان بارڈر پر پناہ گزینوں کا بوجھ یا پناہ گزینوں کے روپ میں ملک دشمنوں کی دراندازی کے خدشات سے چوکنا رہنا ہوگا۔
یہ ہوئی نا بات
ملاکنڈ بائی پاس روڈ پرسیاحوں کو لوٹنے کے معاملہ پر صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر دیرکا تبادلہ وہ راست عمل ہے جس کی ضرورت کافی دیر سے محسوس کی جارہی تھی لیکن حکومت مصلحت کا شکارتھی بالآخر کسی واقعے کا سخت نوٹس لیا جانا صوبے کی بیورو کریسی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جس کے بعد محتاط ہونا فطری امر ہو گا وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران خان بنگش کے مطابق وزیراعلی محمود خان نے تھانہ بائی پاس ملاکنڈ میں اقلیتی سیاحوں کو لوٹنے اور لوئر دیر میں خراب امن و امان کے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے دونوں افسران کو تبدیل کیا ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلی نے واقعے کے تناظر میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس آفیسر کو بالعموم اور سیاحتی علاقوں کے انتظامیہ کو بالخصوص سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ وہ سماج دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھیں غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ لاتوں کے بھوتوں سے باتوں سے نہ ماننے درگزر اور صرف نظر کے باعث صوبے کی بیورو کریسی شتر بے مہار ہو گئی تھی جن کے حوالے سے معزز چیف جسٹس کے حالیہ ریمارکس چشم کشا ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی بڑے واقعے پر اس واقعے کی سنگینی اور حجم کے مطابق ایکشن لینا ہی اچھی حکمرانی اور انصاف کا تقاضا ہے ضلع کے معاملات صرف دفتروں سے احکامات اور برقی پیغامات پر چلانے کا رویہ اور عوام سے براہ راست رابطے کا انقطاع وہ بدعت ہے جس کے باعث انتظامیہ اور عوام کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں اور صاحب بہادر او رکوتوال اگر کبھی کبھار ہوا خوری کے لئے بھی ضلع کا چکر لگایا کریں تو خود یہ ان کی صحت کے لئے اچھا ہو گا بصورت دیگر ان کو اسٹیبلشمنٹ اور سی سی پی او میں حاضر کرنا ہی کارگر نسخہ استعمال کیا جائے۔ اس واقعے پر دو ضلعی افسروں کو مثال بنانے کے بعد دوسروں کا عبرت پکڑنا فطری امر ہو گا اور اگر پھر بھی کہیں سے شکایت آئے تو وزیر اعلیٰ کو کسی مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے اسی طرح کا ٹھوس فیصلہ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے اس طرح کی ایک دو اور مثالیں قائم ہوں تو اس کے اثرات اضلاع اور تحصیل سے لیکر مقامی ہر سطح پر واضح ہوں گے اور افسران بالا و ماتحت اپنے اپنے فرائض سے پہلو تہی کی جرأت نہیں کریں گے اورصوبے میں اچھی حکمرانی اور بہتر عوامی خدمت ہو سکے گی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں