درخت لگانا ہمارا قومی فریضہ

بہت عرصہ پہلے جب میں اسلام آباد میں اپنا بچپن چھوڑ کر نکلی تو مجھے اسلام آباد کے خاموش رستے اور باتیں کرتے درخت بہت یاد آیا کرتے تھے۔ میرے بچپن کے اسلام آباد اور آج کے اسلام آباد میں بہت فرق ہے۔ اس وقت کا اسلام آباد ایک خواب کی طرح تھا۔ خوبصورت مگر خاموش خالی سڑکیں جو خود بخود بل کھاتی منزلوں کی طرف گامزن رہتیں۔ ایک چھوٹا سا شہر جہاں اکثر لوگ دو سرے کو جانتے اور جس شہر کی ہماہمی میں بھی بڑی نزاکت تھی۔ اور اس ہماہمی کو درختوں کو دریا کاٹتے۔ ان درختوں سے میری اور میرے ہم عصروں کی بڑی دوستی تھی۔ ان درختوںکے تنوں کے ساتھ سائیکل ٹیک لگائے ، ہم نے گھاس پر لیٹ کر ، ان درختوں کے پتوں سے چھن کر آتی روشنی میں کتنے خواب دیکھے تھے ۔ اس روشنی کی تاریں پکڑ کر ان خواہشوں کے تانے بانے بنے جس کا اصل مطلب ہمیں بھی معلوم نہیں تھا۔ ان درختوں کے بیچوں بیچ بنی پگڈنڈیوں پر ہم اس یقین سے گھوما کرتے تھے کہ ابھی کوئی بونوں کی بستی ملے گی۔ ابھی کہیں کوئی ننھی سنہری پری دکھائی دے گی۔ لیکن یہ باتیں اب بہت پرانی ہیں۔ اب دنیا نے دانت نکوس لیے ہیں ۔ اسلام آباد اب سڑکوںکے ہنگام میں الجھ گیا ہے۔ چیختی چلاتی موٹریں کسی درخت کی سرگوشی سننے نہیں دیتیں۔ مجھے وہ اسلام آباد بہت یاد آیا کرتاتھا۔ اس کی یاد میںکتنی ہی بار دل خاموشی سے ایک سسکی بھرتا ہے۔ لیکن اب اس حکومت کی کوششوں میں مجھے ایک امیددکھائی دینے لگی ہے۔ مجھے وہ اسلام آباد تو شاید کبھی نہیں ملے گا لیکن اس امید کی ننھے بچے نے آ کر میرا ہاتھ تھام لیا کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کہیں نہ کہیں وہ درخت موجود ہوںگے جو ان کے ساتھی بھی ہوں گے، جو ان سے ویسے باتیں کریں گے جیسے ہمارے دوست درخت ہم سے کیا کرتے تھے۔
وزیر اعظم صاحب نے میواکے جنگل لگائے جانے کا افتتاح کیا۔ یہ ایک امید ، ایک مستقبل ، ایک خواب کا افتتاح ہے۔ حکومت وقت کی پالیسیوں کے حوالے سے اپنی پریشانیوں کا تو ہم بار بار اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ حکومت ملک میں درخت لگانے کے حوالے سے اپنے عزائم میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
اس بات سے تو ہم بخوبی واقف ہیںکہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والے درجہ حرارت سے بدترین متاثرین ہونے والے دس ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا کی بلند و بالا چوٹیاں، گلیشئرز اور منجمد جھیلیں پاکستان کے حصے میں ایک بڑی تعداد میںموجود ہیں ، ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت پر اس کے اثرات کے باعث عالی ماحولیاتی ادارے بار بار دنیا کو باخبر کرتے ہیں کہ اگر معاملات ایسے ہی رہے تو 2030ء تک پوری دنیا کا درجہ حرارت 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔ قطب شمالی کی برف پگھلنے لگے گی۔ اب بھی قطب شمالی پر موجودہ گلیشئرز کی برف پگھلنے کی رفتار خاصی بڑھی چکی ہے۔ سائنسدانوں کو یہ بھی خوف ہے کہ اس برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث، اس بر ف کی تہوں میں صدیوں سے قید وہ جراثیم اور وائرس بھی آزاد ہو جائیں گے جوکہ دنیامیں پہلے تباہی کا باعث رہے اورجنہوں نے ڈائنوسارز جیسے دیوہیکل جانوروں کو ختم کر دیا۔ ان وائرس کا علاج بھی بنی نوع انسان کے پاس ابھی موجود نہ ہو گا۔ وائرس آزاد ہونے کے بعد جب موجودہ انسانی زندگی پر حملہ کریں گے تو ان پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کرونا وائرس اگرچہ ان میں سے نہیںلیکن اس کے ہاتھوں ہوئی تباہی تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں اور ابھی تک اس کا مؤثر علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ اس وائرس کے حوالے سے یہ بھی شک ہے کہ یہ انسانی ذہن کی اختراع ہے۔ اگر ایک ایسا وائرس اتنی تباہی مچا سکتا ہے تو سوچئے کہ ان وائرس کے جان لیو ہونے کا کیا عالم ہو گا جو صدیوں پہلے ایسے دیوہیکل جانوروںکو چاٹ گئے۔
اس حکومت کے اس اقدام میں عوام کو بھی حکومت کا مسلسل ساتھ دینا چاہیے ، یہ بھی بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ دراصل یہ ہماری آنے والی نسلوں کا قرج ہے جو ہمیں آج ہی اتارنا ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ ”درخت لگانے کا اصل وقت تو بیس سال پہلے تھا اور دوسرا مناسب وقت آج ہے” ۔ ہم بیس سال پہلے کا وقت تو گنوا چکے ہیں، آج کے وقت کے حوالے سے ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔ آخر کب تک ہم صرف اپنے ہمسائیوں کی سازشوں کی بھنور میں ہی سوچ کر الجھائے رکھیں گے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا باہر سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ اس کا فیصلہ انسان کے اندر سے ابھرتا اور وہ ایک معاملے کی سمت کو درست کرتا ہے ۔ اگر آج ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم حکومت کی اس کوشش میں حکومت کے ساتھ ہیں تو اس جدوجہد کو جڑ پکڑنے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ اس اساس کے بعد بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو ان پودوں کو مرنے نہیںدیں گے جو ان کے بچوں کے لیے سایہ دار درخت بنیں گے ۔ سڑکوں کے کنارے لگے درختوں کو یونہی کوئی چلتے چلتے کھینچ نہ دے گا۔ حکومت ڈرون کے ذریعے بھی زرخیر علاقوں میں درختوں کے بیج پھینک رہی ہے۔ یہ بھی ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔ دنیا کے کئی ملکوںمیں اس طریقہ کار پر عمل ہو رہا ہے۔ اور یہ بھی سوچئے کہ درخت صرف اپنی حد تک کہاں محدود رہتے ہیں ، وہ ایک پورا ماحولیاتی نظام لے کر آتے ہیں۔ اس میں جانور، پرندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پودوں کے ہی حوالے سے ایک جاپانی ریسرچ کہتی ہے کہ ان پودوں کے خوردبینی اجزاء اور بیچ بادلوں میں بنیاد Nucleusکا کام کرتے ہیں۔ ہمارا آج لگایا ہوا ایک درخت کیا کمال دکھائے گا۔ اس بات کو پوری طور پر سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ وعدہ آج کرنا ہو گا کیونکہ آج کا یہ وعدہ ہمارے خوبصورت کل کی ضمانت ہے ، درخت لگانا واقعی ہمارا قومی فریضہ ہے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی