پی ڈی ایم کی باسی کڑاہی میں ایک مرتبہ پھر ابال آگیا ہے ورنہ عالم تو یہ ہے کہ عملی طور پر پی ڈی ایم بکھر چکی ہے اور بعض اہم جماعتوں نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ایسے میں پی پی کے چیئرمین کی مسلم لیگ نون کو اقتدار کی پیش کش اور عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے دعوے میں کس حد تک حقیقت ہے اس کا اندازہ لگانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے غیر حقیقت پسندانہ دعوے کوئی نئی بات نہیںالبتہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو ہٹانا عین جمہوری عمل ہے اور اس طریقے سے کسی حکومت کو ہارس ٹریڈنگ کے بغیر ہٹانا معیوب نہیں پنجاب اور قومی اسمبلی میںعددی اکثریت ایسی نہیں جو تبدیل نہ ہوسکے پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور پی پی پی کے دعوئوں کے مطابق ان کو ملنے والی یقین دہانیاں برقرار رہیں تو ایوان کے اندر تبدیلی لانا ممکن ہے دوسری جانب وزیر اعظم بار بار اس امر کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کو اقتدار میں زیادہ دلچسپی نہیں وہ مفاہمت کی بجائے گھر جانے کو ترجیح دیں گے قبل اس کے کہ کوئی قدم اٹھایا جائے پی ڈی ایم کو اپنا قلعہ مضبوط کرنا ہو گا اور داخل خارج جماعتوں کو شیر و شکر ہونا ہو گا ان حالات میں یہ امر مشکل نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ نون پی پی پی کی پیشکش قبو ل کرے علاوہ ازیں دونوں ہی جماعت ایک دوسرے کے ہاتھوں شکست خوردہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب اور ان کے خلاف عدم اعتماد کے نتائج کوئی پوشیدہ امر نہیں ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ہے جو مشکل نظر آتا ہے بہرحال ابتداء اگر ڈپٹی سپیکر ز کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر بالترتیب سپیکر کو ہٹانے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کے بعد ہی وزیر اعلیٰ اور بالآخر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان ہو گا لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی بہتر ہو گا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری پوری کرے اور سیاسی جماعتیں اس میدان میں اپنی مقبولیت آزما لیں اس کے بعد عام انتخابات کی تیاری کی جائے تو یہ بہتر فیصلہ ہو گا۔
لیکچررز کی جلد تقرری کی ضرورت
خیبر پختونخوا کے سرکاری کالجز میں چار ہزار سے زائد لیکچررز اور پروفیسرزکی پوسٹیں خالی ہونے اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے کالجز میں جاری بی ایس پروگرامتاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ محکمہ اعلیٰ تعلیم نے اساتذہ کی کمی پورا کرنے کے لئے 1900 لیکچررز بھرتی کرنے کی منظوری تودے دی ہے جس کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے اب یہ عمل اگلے سال مارچ تک مکمل ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے لیکن پبلک سروس کمیشن کے طریقہ کار اور سست روی کے تناظرمیں جائزہ لیاجائے تو اگلے سال بھی ممکن نظر نہیں آتا ۔ اس سال بی ایس کے طلبہ کے داخلوں اور ان کی پڑھائی کا کیا بنے گا اس سوال کاجواب ہائیرایجوکیشن کے محکمے اور کمیشن دونوں کوسوچنا پبلک سروس کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر نوسو لیکچرز کی بھرتی کا چیلنج قبول کرے او جلد سے جلد اقدامات کے ذریعے ان سے ٹیسٹ وامتحان لینے اور انٹرویو کے بعد ضابطے کی کارروائی جلد سے جلد مکمل کرنے کی سعی کی جائے تاکہ صوبہ بھر کے ہزاروں ‘ لاکھوں طالب علموں کی تعلیم متاثر نہ ہو اور معیاری تعلیم کے راہ کی رکاوٹ دور ہو۔
چینی کی قیمت میں پھر اضافہ
تاجروں نے چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کی جو منصوبہ بندی کر لی تھی اس میں ان کو کامیابی ملی ہے انتظامیہ نے تاجروں کے سامنے ہتھیار ڈال کر چینی 104 روپے فی کلو فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔اب چینی 88 روپے کے بجائے 104 روپے میں فروخت ہورہی ہے تاجروں کے موقف میں بھی وزن ہے کہ 88 روپے میں تو چینی مل نہیں رہی تو وہ سرکاری ریٹ پر فروخت کیسے کریں۔معاملہ جوبھی ہو چینی مافیا کسی نہ کسی طرح اپنا الو سیدھا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تاجر بھی چینی مہنگی کر لیتے ہیں نتیجتاً سارا بوجھ عوام ہی اٹھاتے ہیں چینی کی قیمت مقرر کرنے کے عمل میں ملک کی کس کس طرح کے اداروں اور حکمرانوں کو کامیابی نہ مل سکی ہے اس سے شوگرمافیا کی طاقت اور باقی کی بے بسی کا اندازہ ہوتا ہے رہ گئے عوام ‘ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟۔
احسن فیصلہ
کالام اور اتروڑ اقوام کے درمیان تنازعہ کے حل کے لئے قائم لویہ جرگہ کی خصوصی کمیٹی کی دونوں جانب سے تحریری اختیار(تیگہ) لینے کے بعد عارضی فیصلہ سے تصادم کی راہ روکنا اہم قدم ہے متحارب فریقوں کا تنازعہ کو ہوا دینے کی بجائے مصالحت پر آمادگی رواداری کا مظاہرہ ہے جس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کے تنازعات کا روایتی انداز میں حل کی سعی ہونی چاہئے تاکہ تصادم کی نوبت نہ آئے۔
Load/Hide Comments