آزادی تاریخ کے آئینے میں

آزادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے آزادی کا احساس ہمارے ساتھ اس لیے نہیں کہ ہم نے غلامی کی زندگی دیکھی نہیں جو قومیں غلامی کی زندگی گزارتی ہیں وہی آزادی کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں ہمارے دل میں اس کی قدر و منزلت کہاں؟متحدہ ہندوستان پر مسلمان بادشاہوں نے سات سو سال مسلسل حکومت کی تھی جب مسلمان حکمران اسلامی تعلیمات سے منحرف ہونے لگے تو ان کا زوال شروع ہوا ان کا طویل سلسلہ اقتدار ختم ہونے لگا اور ان کی جگہ فرنگی سامراج اقتدار پر براجمان ہوا ۔ برطانیہ فرنگی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان میں آئی اور اپنی تجارتی سرگرمیاں شروع کردیں اس کمپنی نے ابتدا میں مصالحے وغیرہ کی خرید و فروخت کی اور ایک خاص سازش کے تحت مسلمانوں میں اہستہ اہستہ اپنی جڑیں مضبوط کیں انگریزوں نے مال و دولت کے بل بوتے پر مسلمانوں میں سے افرادخر یدے جنہوں نے انگریزوں کی سوچ وفکر عام کرنے کے لیے کام کیا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہوئے اس تجارتی کمپنی نے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور آہستہ آہستہ حکومتی امور میں مداخلت کرنے لگے ابتدا میں جگہ جگہ چھوٹے موٹے نوابوں اور سرداروں کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے لگے اور بعد میں سارے ہندوستان کی حکومت پر قابض ہوئے۔ انگریزوں نے برصغیر میں تقریبا دو سو سال حکومت کی انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کئے جنوبی ہندوستان میں قحط آیا جس میں تقریبا ستر لاکھ افراد لقمہ اجل بنے قحط کے دوران انگریز ہندوستان سے غلہ دوسرے ممالک میں سپلائی کرتے رہے اور قحط زدگان کو ایک نوالہ تک نہ دیا ۔ انگریز ہماری تہذیب، رسم و رواج ،ثقافت اور تجارت پر اثر انداز ہوئے ہندوستان سب چیزوں سے مالامال ملک تھا، ہندوستان کے گورنر جنرل کونسل کے پہلے رکن برائے قانون لارڈمیکالے نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب میں کہاکہ "میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا مجھے تمام لوگ کام کرنے والے معلوم ہوئے کوئی بھی شخص بے کار نظر نہیں آ یا اس ملک میں مال و دولت کی کوئی کمی نہیں ان لوگوں کے اخلاق ، کردار اور سمجھ بوجھ بہت اچھی ہے میرے خیال میں ہم اس وقت تک ہندوستان کو فتح نہیں کر سکتے جب تک ہم ان کی سوچ وفکر، دین، ثقافت اور رسم و رواج کو تبدیل نہ کردیں وہ تبدیلی عملی لحاظ سے ان کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا ہے”اسی لیے لارڈمیکالے نے اعلان کیا کہ ہمیں ایسے نظام تعلیم وضع کرنا ہے جس کو حاصل کرنے والے ہندوستانی ہوں لیکن ان کے دل ودماغ انگلستانی سوچ والے بن جائیں ۔جواب میں مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اعلان کیا کہ ہمیں ایسا نظام تعلیم وضع کرنا ہے جس کے حاصل کرنے والے ہندوستانی ہوں لیکن ان کے دل ودماغ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم والے بن جائیں” اسی سوچ کو عام کرنے کیلئے مولانا محمد قاسم نانوتوی نے1866میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ۔ ابتدا ایک استاد اور ایک شاگرد سے ہوئی اور وہ پہلا شاگرد جس کا نام محمود الحسن تھا بعد میں ایک بڑی شخصیت بن کر ابھرا ان کی شہرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن سے ہوئی۔انہوں نے انگریز قوم کے خلاف جہاداور بہت سی تحاریک چلائیں انگریزی سامراج کے خلاف ایک تحریک بنائی گئی جس کا نام تحریک ریشمی رومال تھا یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے شیخ الہند کو شاگردوں سمیت گرفتار کیا اور مالٹا جیل میں پابند سلاسل کیا دارالعلوم دیوبند کے علما نے انگریزوں کے خلاف ہر محاذ پر چاہے سیاسی، جہادی، اور علمی ہو ہر میدان میں مقابلہ کیا ۔ ان علما کی شب و روز جدوجہد کے بعد مسلم لیگ کا قیام ہوا جس کے صدر قائداعظم محمد علی جناح منتخب ہوئے انہی کے ساتھ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تھے ان سب کی کوششیں رنگ لائیں اور آخر کار پاکستان 14 اگست 1947میں معرض وجود میں ایا انگریزوں سے آزادی چھینے کی کوشش کرتے ہوئے ہزاروں علما اور لوگ شہید ہوئے دیندار لوگ اور علما کو جیلوں میں ڈالا گیا ان کو قسم قسم کی تکالیف دی گئیں لیکن اس کے باوجود مسلمان قوم انگریزوں سے لڑتی رہی آخر کار انگریز بھاگنے پر مجبور ہوئے اور نتیجتاً مسلمان، ہندو اور سکھ سب کو آزادی حاصل ہوئی انگریزوں نے اس ملک کو چلانے کے لیے اپنا فرسودہ نظام چھوڑا جس میں خاص طبقات کے لوگ جیسے بیوروکریٹس کے لیے اعلی مراعات اور اختیارات جو انگریز نے اپنے لیے مقرر کی تھیں اب وہ طور طریقے ہمارے افیسرز افسر شاہی بنائے ہوئے ہیں گاڑیوں کے بے دریع استعمال و شاہ خرچیوں سے اس ملک کے خزانے لوٹ جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ یہ ملک ترقی نہیں کر رہا ۔ ہم نے انگریز سامراج سے حقیقی آزادی حاصل نہیں کی ان کے پیروکار مسلمان ہونے کی شکل وصورت میں اقتدار میں ہوتے ہیں اس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے ملک کے لوٹنے والے طویل عرصے سے ہم پر حکومت کرتے رہے ہیں اور اس ملک کے خزانے لوٹ رہے ہیں ہر نئی حکومت بیرونی ممالک سے قرضے لے رہی ہے ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں اکثر اہم عہداداروں کی تقرریاں امریکہ کی رضامندی سے ہوتی ہیں جب بھی وہ چاہتے ہیں ہمارے ملک میں سب کچھ کرسکتے ہیں اس کی اصل وجہ مقروض ہونا ہے ہمارے ملک میں گیس ، بجلی بل،آٹا اور دیگر اشیا کی قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف کرتی ہے آ عہد کریں کہ اس ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد کرنے کی کوشش کریں گے ملک کو قرض کے دلدل سے آزاد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ہر کام میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیں گے ۔ فضول خرچیوں سے اجتناب کریں گے علاہ ازیں انتخابات میں ایسے لوگ کا انتخاب کیا جائے جو عوام اور ملک کے لیے بہتر کام کرسکیں جو اپنے مفادات پس پشت ڈال کر وطن عزیز کی ترقی کا سوچیں جن کا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے آمین ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں