صرف اپیلیں نہیں مصالحت کرائیں

طالبان نے افغانستان میں جاری اپنی پیش قدمی کے دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھارسمیت مزید 8اہم صوبائی دارالحکومتوں پرقبضہ کر لیا ہے حالیہ لڑائی میں اسے مسلح جنگجوئوںکی بڑی فتح اور افغان حکومت کیلئے اب تک کاسب سے بڑا دھچکا قرار دیاجارہا ہے طالبان شمالی افغانستان کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں اور ان کی نظر اب کابل پر ہے۔قندھار پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں فی الوقت حالات پرسکون ہیں اور شہر سے نقل مکانی کر جانے والے افراد کی واپسی بھی شروع ہو گئی ہے۔دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر انہوں نے طاقت کے زور سے ملک پر قبضہ حاصل کیا تو بین الاقوامی برادری ان کو تسلیم نہیں کرے گی۔ ہم افغان تنازعے کے سیاسی حل کے لیے مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔اس وقت افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ طالبان وسیع علاقے پر چھائے ہوئے اور صدر اشرف غنی وار لارڈز کو سامنے لانے پرآمادہ محسوس ہورہے ہیں۔جس میں ان کو کامیابی کی کوئی امید اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ طالبان اب پوری قوت سے کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت اس مرتبہ وہ ان علاقوں پر قبضہ مستحکم کرکے آگے بڑھ رہے ہیں جہاں ماضی میں ان کو مزاحمت کا سامنا رہا ایسا لگتا ہے کہ طالبان مشکل محاذ سے آگے بڑھ رہے ہیں افغانستان کے بیشتر شمالی علاقوں پر اب ان کا قبضہ ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ دوحہ مذاکرات کے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے جب وائٹ ہائوس کی طرف سے افغانستان سے انخلا کا شیڈول سامنے آیا تو طالبان نے خود کو برتر پوزیشن میں محسوس کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی تاکہ بہتر انداز میں شرائط منوا سکیں۔ پاکستان افغان قیادت پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کرکے فوری طور پر سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں تاکہ مزید کشیدگی سے بچا جائے اگر وہ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو وہ کوئی حل نکال پائیں گے اور افغان جو بھی فیصلہ کریں گے اس کا احترام کیا جائے گا۔خیال رہے کہ پاکستان مسلسل اس تاثر کو مسترد کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں کسی فریق کی جانب داری کی جارہی ہے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے رواں برس جون میں اسلام آباد میں پاک-افغان دوطرفہ مذاکرات کے افتتاحی سیشن میں کہا تھا کہ پاکستان نے واضح فیصلہ کرلیا ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات پر مداخلت نہیں کریں گے ۔وزیراعظم عمران خان نے 11اگست کو ایک انٹرویو میں کہا تھا عمران خان نے کہا تھا کہ اس صورت حال میں افغانستان میں سیاسی حل مشکل نظر آرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان رہنمائوں کو جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو سیاسی حل نکالنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ طالبان نے بتایا کہ جب تک اشرف غنی موجود ہیں، اس وقت تک وہ افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔برطانیہ کی جانب سے انخلاء کے فیصلے پر تنقید ہو رہی ہے اور نیٹو فورسز مزید کسی کردارکے لئے تیار نہیں جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن واضح طور پر افغانوں کواپنا مسئلہ خود حل کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ دنیا ایک جانب تشدد جنگ اور طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضے کی مخالفت تو کرتی ہے مگر اس کی روک تھام کے لئے عملی کردار ادا کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں صرف مذاکرات اور بات چیت کی اپیلیں کافی نہیں اور نہ ہی ان پر کان دھرنے کا کوئی امکان ہے افغان فوج کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے طالبان اپنے سابق دارالحکومت قندہار پر قبضہ کے بعد شہری معمولات کو معمول پر لانے کی سعی میں ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ طالبان ماضی کی بہ نسبت قبضے کے بعد تباہی اور قتل و غارت گری کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ خوش آئند ضرور ہے لیکن کافی نہیں اس صورتحال میں بہتر صورت کابل حکومت کا استعفے اور فوری جنگ بندی و فائر بندی ہے ایسا کرکے ہی طالبان کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے جس کے بعد عبوری حکومت اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو گی بصورت دیگر کابل کا محاصرہ ہی ہو گااور خونریزی کا خدشہ ہے اس صورت میں افغان حکومت کو حالات سے نمٹنا ہو گا جو مشکل نظر آتا ہے دنیا اگر اپیلوں ہی پر اکتفا کرتی رہی تو کابل پرطالبان کا قبضہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے افغان حکومت اور افغان صدر کو عہدے سے استعفیٰ دے کر کسی قابل قبول مصالحت اور حل کی راہ ہموار کرنے کی سعی کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں کشیدگی میں کمی آئے اور معاملہ کا پرامن حل نکل آئے۔
شوگرمافیا کو سزا۔۔۔۔؟
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کارٹل بناکر چینی مہنگی کرنے والی ملک بھر کی81شوگر ملوں پر44ارب روپے کا تاریخی جرمانہ عائد کردیا۔ ملک بھر کی81شوگر ملوں اور شوگرملز ایسوسی ایشن پر44ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ممبر ملز کو جرمانہ مسابقتی ایکٹ 2010ء کے سیکشن 4کی خلاف ورزی پر عائد کیا گیا، انہیں یہ جرمانہ دو ماہ کے اندر ادا کرنا ہوگا۔ شوگر ملز کو آپس کے گٹھ جوڑ کے ذریعے چینی کی قیمت مقرر کرنے، غیرقانونی طریقے سے یوٹیلیٹی اسٹورز کا کوٹہ حاصل کرنے اور گٹھ جوڑ کے ذریعے چینی برآمد کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔شوگرمافیاکے خلاف تاریخی فیصلہ سامنے آیاہے تاہم فیصلے پرعملدرآمدکے راستے میں اب بھی کئی قانونی رکاوٹیں برقرارہیں۔مسابقتی کمیشن کا فیصلہ یقیناً خوش آئند ہے جن کی جانب سے سزا تو ضرور دی گئی ہے لیکن جس سزا پر عملدرآمد نہ ہو سکے وہ ایک علامتی سزا ہی رہتی ہے امکان ہے کہ یہ جرمانہ بھی شاید ہی ادا ہو اور یہ علامتی جرمانہ ہی بن کر رہ جائے شوگر ملز مالکان ایک مربوط اور منظم گروہ کے حامل ہیں ملک کے سترہ سیاسی خاندان جس میں حکمران جماعتوں کے سربراہان ‘ ہر دور کے اہم اتحادی اور بااثر عناصر شامل ہیں جو حکومتی فیصلوں کے ذریعے منظم طور پر چینی کی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت میں اضافہ کرتے ہیں ان سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ خود یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا حکومتی ادارہ ان سے مہنگے داموں چینی خریدتی ہے ایسے میں کسی سزا پر عملدرآمدکا امکان کم ہی ہے حکومت اگر ان عناصر کا کارٹل توڑنے اور آئندہ کارٹل بنا کر چینی کی من مانی قیمت مقرر کرنے اور مہنگا کرنے کے حربوں کو انتظامی اور مارکیٹ کے اقدامات کے ذریعے ناکام بنانے اور پیش بندی کرے تو آئندہ کے لئے چینی کی قلت اور مہنگا کرنے کے عمل کی روک تھام ممکن ہو گی ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مسابقتی کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی اور اسے قانونی جھمیلوں اور قواعد و ضوابط کی بھول بھلیوں کا شکار ہونے نہیں دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے