روس اور چین میں قربت، امریکہ پریشان

روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں حال ہی میں چین کے شمال مغربی حصے میں اختتام پذیر ہوئیں، ان مشقوں میں دونوں ملکوں کی بری اور فضائی افواج نے شرکت کی، مشقوں کا مقصد ہم آہنگ آپریشنز کیلئے ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا تھا۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے (Xinhua)کے مطابق دونوں ملکوں نے جامع سڑیٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم کررکھا ہے۔ روس اور چین کے درمیان قربت پر واشنگٹن میں امریکی حکام کی تشویش بڑھ رہی ہے، جو اسے یورپ و ایشیا میں امریکی سکیورٹی مفادات کیلئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان سے کئی برسوں سے مراسم بڑھ رہے ہیں، شی جنگ پنگ پیوٹن کو اپنا بہترین دوست اور رفیق بھی قرار دے چکے ہیں، دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کیلئے 2013ء سے اب تک دونوں سربراہان مملکت کی درجنوں ملاقاتیں ہوچکی ہیں جبکہ دونوں صدور کے نائبین بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے مارچ میں اپنی دوطرفہ ملاقات میں امریکہ کو بظاہر اس کی علاقائی حدود سے باہر روس اور چین کے مفادات کیخلاف پابندیوں پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔دفاعی لحاظ سے بھی روس اور چین مشترکہ وسائل کو بڑھا رہے ہیں اور ایک دوسرے کی ترقی اور صلاحیت میں کھلے دل سے تعاون کر رہے ہیں۔ گزشتہ 5 سال سے زائد عرصے میں ہتھیاروں کی تقریباً 80 فیصد درآمد کیساتھ روس فوجی آلات کے حوالے سے بیجنگ کیلئے بنیادی ذریعہ بن چکاہے۔ چین کے ملکی سطح پر تیار کئے گئے ہتھیاروں کے کئی نظام روسی نظاموں کی طرز پر تیار کئے گئے ۔ صدر پیوٹن مزید موثر اینٹی میزائل ریڈار سسٹم کی تیاری میں چین سے تعاون کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں اور بلا شبہ امریکی بیلسٹک اور کروز میزائلوں کا نظام ان کے ذہن میں ہے۔ ہتھیاروں کی تیاری میں تعاون کے علاوہ روس اور چین کی افواج گزشتہ ایک دہائی سے بڑے پیمانے پر تربیتی مشقیں بھی کر رہی ہیں اور اب ان دونوں ملکوں کے وسیع پیمانے پر فوجی معلومات کے تبادلے کی جانب بڑھنے کا امکان ہے، جو یقینا امریکہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے، جہاں قومی سلامتی کے ماہرین نے اس حوالے سے بحث و مباحثہ شروع کر دیا ہے کہ امریکہ روس اور چین کو باضابطہ سکیورٹی اتحاد بنانے سے کیسے روک سکتا ہے؟ اگرچہ روس اور چین نے ابھی تک ایسا کوئی اتحاد بنانے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے تاہم نیٹوکے جیسے سکیورٹی معاہدے بعض صورتوں میں ان کے دفاعی تعاون کو اتنا مضبوط کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کو ایک دوسرے کے دفاع سے جوڑ سکتے ہیں۔ روس اور چین باہمی فائدے کیلئے تعلقات بڑھا رہے ہیں حالانکہ سرد جنگ کے دوران دونوں حریف تھے اور ابھی بھی وسطی ایشیا جسے خطوں میں اپنے اپنے مفادات کیلئے کام کررہے ہیں ۔ روس اور چین کے درمیان امریکہ مخالف اتحاد کا معمولی امکان بھی امریکی پالیسی سازوں کیلئے اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ وہ اس پر سر جوڑ کر بیٹھیں، اگر روس اور چین اس راستے پر چلتے ہیں تو عالمی طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے گا اور امریکہ نہیں چاہے گاکہ ایسا ہو۔ روس اور چین مشترکہ معیشت کیلئے مل کر کام کررہے ہیں جس کا حجم28 اعشاریہ 2 ٹریلین ڈالر ہے ،جو امریکی معیشت سے زیادہ مضبوط ہو گی۔سکیورٹی اتحادکی صورت میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی جنگی خامیوں پر دور کرنے میں مددملے گی اور امریکہ پر دبائو بڑھے گا کہ وہ یورپ اور ایشیا میں اپنے اتحادیوں کے بچائو کیلئے فوجی ذرائع بڑی حد تک بڑھائے، یوں امریکہ کو اپنا دفاعی بجٹ مزید بڑھانا پڑے گا۔اب تک کی امریکی پالیسی نے چین اور روس کے رہنمائوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا ہے ، دونوں ملکوں میں دوطرفہ تجارت اس سال کے آخر تک 120 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے ، روسی کمپنیوں کے خلاف امریکہ کی پابندیوں سے ماسکو اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ یورپی منڈیوں کا متبادل دیکھے۔ نظریاتی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی روس اور چین کے ساتھ مساوی مقابلے کی روش نے نہ صرف ان اتحادیوں کو امریکہ سے دور کیا ہے، جو دونوں طاقتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اس سے امریکہ مخالف ممکنہ اتحاد کیلئے بھی راہ ہموار ہوئی ہے، دراصل امریکہ اپنا دشمن خود ثابت ہو رہا ہے۔ بعض امریکی ماہرین روس اور چین کے اس ممکنہ اتحاد سے بچنے کیلئے ریورس نکسن حکمت عملی پر عملدرآمد کی سفارش کی ہے، جس کے تحت امریکہ روس کو اپنے قریب لائے اور بعد میں چین کے ساتھ وسیع تر ٹکرائو میں اسے اپنے ساتھ شامل کرے ۔ لیکن اگرامریکہ اس حکمت عملی پرعمل پیرا ہوتاہے تو یہ وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا ،ولادی میر پیوٹن کا چین کے ساتھ باضابطہ دوطرفہ دفاعی معاہدہ نہ کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں وہ روس کو چین کے خلاف امریکی مہم میں شامل کرنے کو تیار ہیں ، اس وقت امریکہ اور روس کے تعلقات گزشتہ دہائیوں کی کم ترین سطح پر ہیں۔ امریکہ کو غلطیوںکی تصیح اور ان پالیسیوں کو ترک کرنا چاہئے جو روس اور چین کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہیں ، ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے جس سے امریکہ اور روس کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، روس کے خلاف پابندیوں کا استعمال بھی روکنا چاہئے، پابندیاں نہ صرف روس کا طرز عمل تبدیل کرانے میں غیر موثر ثابت ہوئی ہیں بلکہ ان سے روس کا چینی منڈی پر انحصار بھی بڑھ رہا ہے، امریکہ یہ بھی واضح کرے وہ نیٹو کو مزید وسعت دینے کی حمایت نہیں کرتا۔
(بشکریہ ، نیوزویک،ترجمہ:راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند