بیس سال

کابل میں بیس سال بعد کے مناظر

پڑوس(افغانستان) میں آئی تبدیلی حیران کن ہر گز نہیں دوحہ معاہدہ کی کاپی آسانی سے دستیاب ہے ‘ بڑھکیں مارنے اور تارے توڑنے سے پہلے اسے پڑھ لیجئے تاکہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ہوا کیا۔ پیناگون نے سقوط کابل کا وقت پہلے چھ ماہ کا دیا پھر 90دن کا اب بالآخر کہا طالبان دس سے پندرہ دن میں کابل پہنچ سکتے ہیں۔ معاف کیجئے گا معاملہ صرف قومی مفاد کا ہر گز نہیں۔ سوال اہلیت پر ہے ۔ اہلیت کیا ہے ‘ جو کہ جس وقت طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے عین اس وقت ہمارے وزیر خارجہ ملتان میں ایک نجی سیاسی تقریب میں سپرائٹ کا نصف گلاس پینے کے بعد چائے سے لطف لے رہے تھے ۔ ہم کس معاملہ میں کتنے باخبر اور رابطہ میں تھے ۔ یہ مت پوچھیں ہاں یہ درست ہے کہ دوسرے پڑوسیوں کی طرح ہمیں بھی افغانستان کے اندر اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ ہونے بھی چاہئیں البتہ وہ بھاگ گیا۔ اس کی انوسمنٹ ڈوب گئی کھاتا نہیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ اس تبدیلی کے اثرات کیا ہوں گے یا یوں کہہ لیجئے کیا ہوسکتے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بندوق کے زور پر اپنی فہم کا انقلاب لانے والوں کے جذبوں میں بارود بھرے گا۔ ہمارے یہاں جودانشور فرما رہے ہیں طالبان نے اپنا حق لیا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ طالبان نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو پھانسی چڑھا کر کابل لیا تھا۔ خیر جانے دیجئے بحث اور کہانی دونوں طویل ہوجائیں گے ۔ پڑوس میں آئی تبدیلی کچھ زیادہ حیران کن نہیں ‘ جو سمجھ سکتے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ پینٹاگون ‘ وائس آف امریکہ ‘ سی این این ‘ فالکن نیوز ‘ الجزیرہ ‘ بی بی سی سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ امریکی انخلاء کے شیڈول کے شروع ہوتے ہی جو کہانیاں بیچ رہا تھا اس کا مقصد کیا تھا۔ ایک بات سمجھ لیجئے حب الوطنی اور خبریت دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک خبر ہوتی ہے آپ اسے حب الوطنی کی عینک لگا کے دیکھتے ہیں خبر نگار اسے خبر کی طرح دیکھنے کے ساتھ اس کے پس منظر کو سمجھنے اور مستقبل پر اس کے اثرات دونوں کو سامنے رکھتا ہے ۔ خبر زندگی موت کا مسئلہ ہے ‘ کفر و اسلام کا نا حب الوطنی اور غداری کا ‘ جس دن ہم یہ معمولی سی بات سمجھ لیں گے بہت ساری پریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔
ہم آگے بڑھتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کی امارت اسلامی ‘ کا طرز حکومت ‘ عمومی رویہ اور معاملات بیس سال قبل والے ہوں گے ؟ یا ان تینوں میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔ ابھی پالیسی بیان نہیں آیا۔ افغانستان میں موجود پڑوسی ممالک کی بعض تنظیموں کا مستقبل کیا ہو گا۔ یہاں یہ ذہن میں رکھئے کہ ان بعض تنظیموں میں سے کچھ طالبان کی فکری حلیف ہیں پوری جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں اور کچھ ان کے حریف کے طور پر پچھلے چند برسوں میں ابھر کر سامنے آئیں۔ حریفوں میں دولت اسلامیہ خراسان یعنی داعش نمایاں ہے ۔ اسلامک مومنٹ ازبکستان اور اسلامک مومن ترکمانستان شامل ہیں ۔ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ تینوں اور دو تین دوسری عسکری تنظیمیں امریکہ کی چھتری میں افغانستان میں منظم ہوئیں۔ یہ مت بھولیں کہ دوحہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ طالبان مستقبل میں ایسی کوئی حکمت عملی نہیں اپنائیں گے جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے ۔ یہی ان کا اصل امتحان ہے لاریب انہوں نے دس روز میں پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا ان دس دنوں میں انہیں کہیں بھی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ نہ افغان نیشنل آرمی مدمقابل ہوئی۔ کیا اس پر سولات کرنا یا غور و فکر غلط ہو گا کہ وہ لوگ جو پچھلے کم از کم تین ماہ کے دوران طالبان سے لڑ رہے تھے اچانک کدھر گئے اور وہ صوبہ بہ صوبہ فتح یاب ہوتے ہوئے کابل کے ایوان صدارت میں داخل ہو گئے ۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ پردہ داری مقصود کس کو ہے؟ یہی اہم سوال ہے ۔
جہاں تک ملک چھوڑے جانے والے اشرف غنی کا معاملہ ہے تو وہ کہتے ہیں میں کابل میں خون بہنے کو روکنے کے لئے رخصت ہونا مناسب سمجھا۔ ان کے پیچھے رہ جانے والے سابق ساتھی ان پر بے وفائی اور وطن فروشی کا الزام لگا رہے ہیں۔ بیس سال قبل جب امریکی کابل اترتے تھے طالبان کی قیادت بھی اس طرح رخصت ہوئی تھی ۔ وہ آئے تو اشرف غنی رخصت ہو گئے ۔ اشرف غنی امریکی کردار تھے ۔ ا چھا مان لیا ۔ عبد اللہ عبد اللہ ‘ حامد کررزئی یہ کون ہیں کس سیٹ اپ کا حصہ تھے ۔ اب جو تین رکنی عبوری کونسل بنائی گئی یہ کیا ہے ؟۔ مکرر عرض کیے دیتا ہوں امریکیوں نے اپنے مفادات کی مستقل حفاظت کی گارنٹی لی ہے ۔ عروج و زوال کی کہانیوں ‘ نفرت اور معجزوں سے جی بہلاتے رہیں۔ جو نفرت اور معجزے پچھلے بیس سال میں کیوں نہ ہوئے ۔ پھر گزشتہ چھ ماہ میں کیوں نا ۔ اچانک دونوں مہربان ہوئے اور دس دنوں میں کابل کا تخت قدموں میں آن پڑا۔ جذباتی نہ ہو ں ٹھنڈے پانی کا گلاس سانس لے لے کر پییں پھر غور و فکر کریں۔ زندگی غور و فکر اور منصوبہ بندی سے آگے بڑھتی ہے ۔ سب اچھا ہے تو افغانستان کے پڑوسی ممالک کے سرحدی راستوں اور نکاس کے قیام پر ہجوم کیوں ہیں؟ کابل ایئرپورٹ کا منظر ویڈیوز کے ذریعے آپ نے دیکھ لیا ہوگا دھند چھٹنے دیں۔ مطلع صاف ہو تو دور تک دیکھ سکیں گے ۔ کوئی اگر صورتحال کو شعوری طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو سابق صدر اشرف غنی کی طرف افغان آرمی کے سربراہوں کی برطرف اور نئے کی تقرری کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اس برطرفی اور تقرری میں ساری کہانی یا یوں کہہ لیجئے منصوبہ بندی ہے ۔ ہاں ایک بات درست ہے اشرف غنی امریکی اعتماد سے محروم ہو چکے تھے اس لئے آخری دنوں میں عضو معطل ہو کر رہ گئے ۔ آخری بات یہ ہے کہ اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اسلام آباد میں اس وقت (جب یہ سطورلکھ رہا ہوں) جوافغان مہمان موجود ہیں کیا یہ مستقبل کے معاملات میں ہمارا اثاثہ ثابت ہوں گے ۔ ہفتوں میں نہیں چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ بس تھوڑی سی زحمت کیجئے انتظار کی۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟