Idariya

افغانستان کی صورتحال اور عالمی برادری کی ذمہ داری

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عالمی برادری کو یکجا ہو کر افغانستان کو دہشت گردی کے لئے بنیاد بننے سے بچانے کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں فوری طور پر نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے چین نے کہا کہ وہ افغانستان میں اگلی حکومت کے ساتھ دوستانہ اور تعاون کے تعاون کے لئے تیار ہے۔روس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نئی انتظامیہ کے ساتھ رابطے ہوچکے ہیں۔عالمی برادری کی طرف سے طالبان سے انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور طویل عرصے سے جنگ زدہ ملک میں امن و استحکام کے لئے زور دیا جا رہا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست پائیدار امن کا ایک موقع ہے افغانستان میں امریکی شکست سے پڑوسی ملک میں پائیدار امن کا موقع پیدا ہوا ہے جو جنگ سے متاثرہ ملک ہے۔ایران کے نئے صدر کا بیان افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سامنے آیا ہے تاہم اس میں نہ تو طالبان کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور نہ ہی افغان حکومت کی ناکامی کا بتایا گیا ہے۔چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہووا چونینگ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون کے تعلقات مضبوط کرنے کے لئے تیار ہیں۔رائٹرز کے مطابق امریکی حکومت، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، کوریا، قطر اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک نے مشترکہ بیان میں کہا کہ افغانستان میں جن کے پاس اختیار ہے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانی جانوں اور املاک کا تحفظ کیا جائے اور فوری طور پر سکیورٹی اور امن و عامہ بحال کیا جائے۔اگرچہ اس وقت افغانستان میں کوئی قانونی حکومت کا وجود نہیں صدر اشرف غنی بغیر استعفے کے مفرور ہیں اور عملی طور پر افغانستان اور کابل کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اس صورت میں بعض اہم ممالک نے طالبان سے تعلقات کا واضح عندیہ دیا ہے اور دیگر عالمی برادری کی جانب سے گوکہ اس طرح کا کوئی عندیہ تو نہیں دیاگیا ہے لیکن وہ مسلسل امن وامان استحکام ا من اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی اپیلیں ضرور کررہی ہے خواتین کو بھی شریک اقتدار کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں ظاہر ہے نام نہ لینے کے باوجود ان کے مخاطبین طالبان ہی ہیں اس طرح کی ا پیلوں سے بظاہر تسلیم نہ کرنے کے باوجود وہ طالبان ہی کو اب حکمران سمجھ کر ان سے بالواسطہ اپیلیں اور مطالبات کرنے لگے ہیںجوایک طرح سے ان کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے عالمی برادری کے خدشات اور اپیلوں سے قطع نظر کابل پر طالبان کی عملداری کے بعد کوئی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں انسانی حقوق کی خلاف خواتین سے امتیازی سلوک اور کسی کی جان و مال خطرے میں ہو البتہ کابل کے ہوائی مستقر میں افغانستان سے ہرحال میں نکلنے کے خواہاں لوگوں پر امریکی فوجیوں کی فائرنگ سے ہلاکتوں اور جہاز سے لٹکنے والوں کے گرنے سے جاں بحق ہونے کے واقعات ضرور رونما ہوئے ہیں جس کی ذمہ داری طالبان پر عائدنہیں ہوتی بلکہ اپیلیں کرنے والے ہی اس کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی اپیلیں بھی دکھاوے سے کم نہیں البتہ ماضی میں طالبان سے جو بعض غلطیاں ہوئی تھیں اس مرتبہ طالبان نے ان کو دہرانے سے گریز کرکے خود کو قابل قبول ثابت کیا ہے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ طالبان جس نظام کے داعی ہیں اس میں صرف انسانی حقوق کی حفاظت و ضمانت ہی بلکہ احسان اور خیر خواہی کی تاکید موجود ہے خواتین کو شریک اقتدار کرنا یا نہ کرنا افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے اس حوالے سے ضروری نہیں کہ طالبان عالمی برادری کی اپیلوں پر کان دھریں عالمی برادری کی اپیلیں اس وقت ہی معتبر ہوں گی جب عالمی برادری کابل میں قائم ہونے والی حکومت سے تعاون اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی شروع کرے گی طالبان کی متوقع حکومت سے تعلقات رکھنا ہی اب مصلحت کا تقاضا ہے اور وقت کی ضرورت ہے اس لئے کہ ماضی میں طالبان کو الگ تھلگ کرنے کا تجربہ اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہے جسے دہران کی دنیا متحمل نہیں ہو سکتی اس لئے عالمی برادری کو اپیلوں کے ساتھ ساتھ خود بھی کابل کے ممکنہ حکمرانوں سے دوری ا ختیار کرنے کی بجائے مراسم رکھنے پر آمادگی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی ایسی خلاء پیدا نہ ہو کہ ایک مرتبہ پھر دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت