Mashriqyat

مشرقیات

زندہ دلان لاہور نے پھر اپنے شہرکا نام چارنہیں آٹھ چاند لگائے ہیں ایک بے بس لڑکی کو گھیر کر انہوں نے مینار پاکستان کے گریٹر پارک میں ایک اور تاریخ رقم کر دی ہے ،یہ وہی میدان ہے جہاں 1940کو قیام پاکستان کی تاریخ ساز قرار داد پیش کرنے والوں کے وہم وگمان میںنہیں تھا کہ ایک روز ان کی بنائی گئی مملکت خداداد کے جواں مرد بھوکے بھیڑیوںکی طرح ایک خاتون پر پل پڑیں گے اور پورے عالم سے لعنت سمیٹیں گے۔ سینکڑوں جواں مرد میدان قرار پائے ہیں، مقابلے میںایک نہتی لڑکی تھی جس کا قصور یہ تھا کہ وہ ٹک ٹاک بنانا چاہتی تھی ادھر یوم آزادی کا جشن منانے والے اس جشن کو دو آتشہ بنانے کا سامان ڈھونڈ رہے تھے، لڑکی انہیں ہاتھ آ گئی اور جشن دو آتشہ ہوگیا۔
آپ کو لڑکی کا قصور بتایا ہے اور ظاہر ہے قصور وار کی سزابھی ہوتی ہے۔سزا کا فیصلہ ہم خود کرتے ہیں کوئی قاعدہ قانون یا ریاست ہم سے یہ حق نہیں چھین سکتی۔سب کو معلوم ہے کہ یہاں خواتین کو سزا دینے کی بات آئے تو غیرت مند انہیں قبروں سے بھی نکال کر نمونہ عبرت بنا لیتے ہیں ابھی کل پرسوں ہی آپ نے سندھ سرکار کے دیس میں قبر کشائی کرکے لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے کے ایک واقعے بارے پڑھا ہی ہوگا۔ جب کوئی عورت قبر میں بھی محفوظ نہیں تو پھر جیتی جاگتی لڑکی ہاتھ لگے وہ بھی جشن مناتے ہوئے تو پھر اس کے ساتھ ہونے والے اجتماعی سلوک پرحیرت چہ معنیٰ دارد؟ ہاں فکر کی بات اب صرف یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی زیادتی کے واقعات اب ہچوم کی صورت میں ہونے لگے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ چار سو بندے اسی قوم کی نمائندگی کرنے کے لئے خاتون پر پل پڑے تھے اور پھر جا کر سب نے سوشل میڈیا پر واقعے پر کف افسوس ملنے کے لئے محاذ سنبھال لیا، منافقت اور اس پر دیدہ دلیری کی ایسی مثالیں ہم ہی پیش کر سکتے ہیں۔ہزاروں افراد اب ایک نہیں پانچ ٹرینڈ چلا کر اس واقعے کی مذمت کرتے تھک نہیں رہے ان میں سے اکثر کو ایسی کوئی نہتی لڑکی ہاتھ آ جائے تو اخلاقیات کا سار افلسفہ بھول کر وہ انسانیت کا جامہ اتارنے میں دیر نہیں کرتے۔کوئی ایک مثال ہو تو بتائیں مملکت خداداد میں خواتین سے بدسلوکی اور گھنائونے جرائم کے ایسے ایسے بھیانک واقعات کی ایک تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔اس بار اسی تاریخ کو تاریخ ساز گریٹر اقبال پارک میں دہرا کر ہم نے یوم آزادی کا شاندار جشن منایا ہے۔ہم ویسے ہی یوم آزادی کے موقع پر بھونپو اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے ہونے والے کھیل تماشوں اور شور شرابے پر پابندیوں کے مطالبے داغ رہے ہیں۔ جشن منانے کے جواں جذبے اس سے کہیں زیادہ منہ زور ہیں اس منہ زوری کے سامنے ریاست بھی بند نہیں باندھ سکتی۔اس ملک کی خواتین کا اللہ حافظ!!!

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے