یزید مورچہ جیتا ہے،جنگ ہارا ہے

صحاح ستہ ،سنن نسائی،مسند احمد، طبرانی فی الکبیراورلاتعداد کتب احادیث میں روایت ہے کہ سجدے کے دوران امام حسین جب نبی کریم ۖ کی پشت مبارک پہ سوار ہوئے آپ ۖنے اپنا سجدہ طویل کردیا، نانا نے نواسے کے لئے سجدہ طویل کیا تھا تو نواسے نے نا نا کا قرض اتارتے ہوئے اپنے خالق کے حضور سجدہ ریزی میں سر کٹا کر سجدے کو معراج عطا کردی۔ امام حسین نے نوک سناں پر چڑھ کراورجامِ شہادت نوش فرما کر مظلوم انسانیت کو ظلم اور ظالم کے سامنے نہ جُھکنے کا لازوال سبق دیا۔واقعہ کربلا تاریخِ انسانیت کا ایسا درد ناک واقعہ ہے کہ جس نے تاریخ کے اوراق میں حق و صداقت کے ایک نہایت روشن باب کا اضافہ کرکے مظلوم انسانوں کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف باطل قوّتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا شعور دیا۔یہ اقتدار کی جنگ نہ تھی بلکہ اقدار کی جنگ تھی۔ یہ دو شخصیات کی لڑائی نہ تھی بلکہ دو نظریات کا ٹکراؤ تھا۔ کربلا کے میدان میں حسینیت اور یزیدیت دو کردار آمنے سامنے تھے۔ یزید اپنی بد طینت فطرت کے باعث دُنیا بھر میں ذلت اوررُسوائی ، ظلم اور جبر کی علامت بن کر کر ابھرا۔ حسین آج بھی حق و صداقت کی ایک زندہ مثال ہے۔ یزید کی حکومت پل بھر کی تھی جبکہ اسلام اورانسانی اقدار کے تحفظ کے لیے مصائب پر صبر کرنے والے امام کو ایسی فتح نصیب ہوئی کہ صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا۔
حضرت یعلیٰ ابن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ”حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے۔”آج ہر باضمیر امام حسین کو اپنا پیشوا سمجھتا ہے ہر حریت پسند امام حسین کے کردار سے جذبہ کشید کرتا ہے ہر محروم و مظلوم امام حسین کے دامن سے وابستہ ہونا باعث نجات سمجھتا ہے۔ کارلائل اپنی کتاب” ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ” میں اعتراف کرتا ہے کہ ”شہادتِ حسین کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کیاجائے گا اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے۔” امام حسین وہ ہستی ہیں جنہوں نے ذلت و ر سوائی کو قریب پھٹکنے نہیں دیا،تلوار وںکے سائے میں انحطاط و پستی پر جرات و دلیری اور شہادت کوترجیح دی ۔آپ کے خانوادہ ِ اطہار کی قید و بند کی صعوبتیں دشمنانِ دین کی ذلت کا باعث اور آپ کی فدا کاری کی پیروی دنیائے انسانیت کی غیرت کا سبب ہے ۔
امام حسین کوکوفیوں نے ہزاروں خطوط لکھ کر یقین دلایا کہ وہ یزید کی حکومت سے بے زار ہیں اور امامِ عالی مقام کے دستِ مبارک پر بیعت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، لیکن حضرت مسلم بن عقیل کے مظلومانہ قتل سے شہادت گاہِ کربلا تک وہ یہی کہتے رہے کہ اُن کے دل تو نواسہ رسولۖ کے ساتھ ہیںلیکن تلواریں والی کوفہ کے ساتھ تھیں۔یہ بھی ہماری اسلامی تاریخ کا المناک پہلو ہے کہ بہت سے صحابہ کرام کی اولاد میدانِ کربلا میں اہل بیت کے خلاف صف آرا تھی۔ ایک ایسی سازش جو خلافتِ راشدہ کو ملوکیت میں بدل رہی تھی، یزید اُس سوچ اور اقتدار کا نمائندہ بن کرآیا۔
حسین نے کربلا کے مقتل میں صرف اِس لیے جامِ شہادت نوش فرمایا کہ باطل کو حق کہنے کے لیے تیار نہ تھے، جنھیں اپنے نانا ۖ کے لائے ہوئے دین میں تحریف گوارا نہ تھی۔ اپنا کنبہ ذبح کروا کے اُمّت کو یہ سبق دیا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا، سب سے افضل جہاد ہے۔آپ کی شہادت کے بعد امام زین العابدین اور دخترِ رسولۖ کے گھرانے کی عفّت مآب خواتین پر مشتمل لُٹا پٹا قافلہ جب مدینہ پہنچا، تو اُن میں امامِ عالی مقام کی چچا زاد، سیّدہ زینب بنتِ عقیل بھی شامل تھیں، جو رو رو کر اشعار پڑھ رہی تھیں۔مولانا اسماعیل ریحان نے”تاریخ اُمّتِ مسلمہ” میں ان عربی اشعار کو نقل کیا ہے، ترجمہ یہ ہے،”لوگو!تم کیا جواب دو گے، جب پیغمبرۖ تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری اُمّت ہو کر کیا کیا؟میرے بعد میری اولاد اور میرے گھر والوں سے کیا سلوک کیا؟ان میں سے کچھ قیدی بنے،کچھ مقتول ہو کر خاک و خون میں نہلا دیے گئے،مَیں نے تمھاری جو رہنمائی کی تھی، اُس کا بدلہ یہ تو نہ تھاکہ میرے بعد میرے اقارب سے بدسلوکی کرو۔”
کربلا میں بہ ظاہر تو باطل مردود کو فتح حاصل ہوئی، شیرخوار ومعصوم بچوں، خواتین اور افضل مردان حق کے ساتھ ظلم و ستم ہوا مگر صاحبانِ بصیرت خوب جانتے ہیں کہ شکست کس کا مقدر بنی ۔ یزید بہ ظاہر جیت کر بھی ایسا ہارا کہ رہتی دنیا تک ہار کی بدترین اور عبرت ناک مثال بن گیا اور بنا رہے گا۔یاد رکھنا چاہیے کہ کربلا، حق و باطل میں امتیاز کا نام ہے۔ کربلا، آمریت کے خلاف جمہور کی آواز ہے ۔کردار حسین ہی دراصل بقائے انسانیت ہے۔ حسین اسلام کی حقانیت اور سربلندی کا نام ہے۔ شہادت دراصل باطل کی نفی کرنے اور راہ حق میں اپنی جان قربان کر دینے کا نام ہے۔ اسلام ایسا دین ہے جس میں عدل، انصاف اور احسان کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔حسین نے دشتِ کربلا میں اپنے خون سے جو انقلاب برپا کیا اس کے ثمرات سے دنیا محشر تک استفادہ کرتی رہے گی۔آج استعماری قوتیں پوری دنیا پر غلبہ پانے اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جارہا ہے۔اس بحران کی خوفناک صورتحال سے عالم اسلام کی نجات صرف راہِ ِکربلا اختیار کرنے میں مضمر ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند