سقوط کابل ،دہلی اور تل ابیب کا غم

افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اہم ترین اور علامتی حیثیت کی حامل خبروں میں ایک طالبان حماس رابطہ ہے ۔اس رابطے کی تصدیق فلسطین کی مزاحمتی قیادت اور طالبان دونوں نے کی ہے ۔حماس کے ترجمان اور سابق منتخب وزیر اعظم اسماعیل حانیہ نے قطر میں طالبان کے سیاسی شعبے کے سربراہ سے ملا عبدالغنی برادر کو ٹیلی فون کرکے تاریخی فتح اور امریکہ کی شکست پر مبارکباد دی ۔حماس کے سیاسی شعبے کے رکن موسیٰ ابو مرزق نے ایک ٹویٹر پیغام میں اسماعیل حانیہ اور ملا عبدالغنی برادر کی ایک ملاقات کی ایک تصویر بھی جاری کی اور کہا یہ ملاقات دوحہ میں چند ماہ قبل ہوئی ہے ۔موسیٰ ابو مرزق کا کہنا تھا کہ طالبان کی بہادر قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے جس نے باہمی اتحاد برقرار رکھ کر اس فتح کو ممکن بنایا ۔طالبان فاتح ہیں۔وہ ہوشیار اور حقیقت پسند ہیں۔انہیں جمہوریت کے نعروں سے دھوکا دیا جا سکااور نہ جھوٹے وعدوں سے بہلایا جا سکا۔یہ تمام مظلوموں کے لئے ایک مثال ہے۔فلسطین کی سب سے منظم مزاحمتی تحریک حماس کا یہ پالیسی بیان اور طالبان کا تبصرہ اور تصویر سوچنے سمجھنے والوں کے لئے گہری نشانیاں لئے ہوئے ہیں۔اسرائیل کے اخبارات نے حماس اور طالبان کے درمیان اس نامہ وپیام کو پورے سیاق وسباق کے ساتھ شائع کیا ۔کئی ایک تجزیہ نگاروں نے اس کے اثرات پر بھی محتاط انداز میں بات کی ۔یروشلم پوسٹ نے غزہ کے ایک صحافی کے حوالے سے لکھا کہ طالبان کی فتح فلسطین کے مزاحمتی گروپوں پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کرے گی اور وہ حماس اور طالبان میں تعاون ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔اخبار نے لکھا کہ فلسطینی طالبان کی فتح کا جشن منارہے ہیں اور سوشل میڈیا پر امریکہ کی شکست پر مبارکبادیں پیش کر رہے ہیں۔اسرائیلی اخبار نے ”افغانستان سے امریکی انخلا لبنان سے اسرائیلی انخلا کی بازگشت ” کے عنوان سے لکھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا 2000میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان سے انخلا کی طرح ہے ۔ ہرب کنعان کے لکھے گئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاکے بعد اس علاقے پر حزب اللہ نے اپنی بالادستی قائم کر لی تھی ۔اسرائیلی فورسز نے کنٹرول جنوبی لبنان کی فوج کو دیا تھا مگر اس موقع سے حزب اللہ نے فائدہ اُٹھایا ۔جب اسرائیلی فوج جنوبی لبنان سے نکل رہی تھی تو حزب اللہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کا کام کر رہی تھی ۔اب امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان دوبارہ شدت پسندوں کی جنت بن سکتا ہے ۔ جہادیوں کا ایک سیلاب آسکتا ہے جیسا کہ اسی کی دہائی میں ہوا جب پشاور دنیا بھر کے جہادیوں کا مرکز تھا۔امریکہ نے بن لادن کو تو مارا مگر ایران سے سعودی عرب اور پاکستان سے لبنان تک اسلامک ریڈیکل ازم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ طالبان کی فتح پر اسرائیل کی یہ چیخ وپکار اندر کے
چور کی آوازیں ہیں۔طالبان کی فتح پر وادی کشمیر میں بہت محتاط ردعمل ہے ۔سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر شدید کنٹرول اور مانیٹرنگ کی وجہ سے عوامی جذبات پوری طرح سامنے نہیں آرہے اور کشمیری راہنمائوں نے بھی ابھی اس صورت حال پرکوئی واضح بیان جا ری نہیں کیا مگر اندازہ ہورہا ہے کہ وادی میں اس کامیابی کو ایک نئے امکان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔یہی نہیں سقوط کابل کے بعد بھارتی میڈیا کی چیخ وپکارپر چورکی داڑھی میں تنکا کا محاور ہ صادق آتا ہے ۔طالبان بار بار اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان کر رہے ہیںمگر بھارتی میڈیا کہہ رہاہے طالبان اب کشمیر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کریں گے ۔وہ لشکر طیبہ او رجیش محمد جیسے گروپوں کی حمایت کرکے کشمیر میں ایک بار پھر مسلح تحریک کو مہمیز دے سکتے ہیں۔بھارتی اخبار سٹیٹسمین میں ارچنا مسیح کا ایک مضمون کیا طالبان کشمیر کاز کو آگے بڑھائیں گے؟ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ کابل حکومت کا خاتمہ علاقائی مسلح گروپوں کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔جس سے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو شہ مل سکتی ہے۔یہ تنظیمیں وہی تجربہ کشمیر میں دہراسکتی ہیں جو طالبان نے افغانستان میں کیا ہے۔بھارتی صحافی کی یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ انہیں اس بات کا خو ف ہے کہ کشمیر میں طالبان طرز کی منظم عسکری تحریک بھارت کو امریکہ جیسے انجام سے دوچار کر سکتی ہے۔طالبان کی کامیابی پر اسرائیل اور بھارت کے ماتمی بین اور فلسطینیوں اور کشمیریوں کی معنی خیز مسکراہٹ آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر بنا رہے ہیں ۔اسی لئے امریکہ بھارت اور اسرائیل افغانستان میں ہونے والی ہزیمت کو دوبارہ اپنی کامیابی میں بدلنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ طالبان ہمیشہ سے افغان فوکسڈ تحریک رہی ہے ۔طالبان تحریک نے مجموعی طور پر خود کو ماضی میں بھی کئی تنازعات سے دور رکھا تھا مگر طالبان کے اُبھار اور واپسی کے نفسیاتی اثرات کو کوئی بھی نہیں روک سکتا خود طالبان بھی اس کی قدرت نہیں رکھتے ۔ایران کے انقلاب اور افغانستان کے جہاد نے وادی ٔ کشمیر کے عوام کو پرامن سیاسی جدوجہد ترک کرکے مسلح راستوں کی جانب مائل کیا تھا ۔انتفاد ہ ،عرب سپرنگ اور مشرقی یورپ کی آزادیوں اور دیوار برلن کے انہدام نے بھی انہیں حالات کی زنجیر کاٹنے کی کوشش پر آمادہ کیا تھا ۔اب طالبان کی واپسی کے اثرات دائیں بائیں نظر آسکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب