قسمت ‘ نصیب ‘ زندگی سب ہے مرے خلاف

سابق شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور کابل کے حکمران(سابقہ)اشرف غنی کی خود ساختہ ملک بدری یا بقول شخصے فرار میں بعض حلقے قدر مشترک تلاش کر رہے ہیں ‘ایک لحاظ سے کچھ مشترکات دونوں واقعات میں ضرور موجود ہیں تاہم بعض باتیں ایسی ہیں جن کو دریا کے دوکناروں کی مانند الگ الگ اور ایک دوسرے سے دوری ہی قرار دیا جا سکتا ہے ‘ شہنشاہ ایران بھی اپنے دور میں امریکی اور مغربی ممالک کے بہت قریب اور ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کرکے اپنے عوام پر محولہ طاقتوں کے مفادات کے لئے اپنے عوام پر مظالم توڑتا رہتا تھا اور ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سامنے آنے والے” حقائق” سے پتہ چلتا ہے کہ شہشناہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر جس طرح وہاں کی خفیہ ایجنسی بے پناہ مظالم کرتی رہتی تھی اوروہاں خصوصاً نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ‘ ٹارچر کیمپوں میں ان کا جو حشر کیا جاتا ‘ اس حوالے سے بعد میں سامنے آنے والی”داستانوں” سے پتہ چلتا ہے کہ ٹارچر سیلوں میں رزق موت بن جانے والوں کا گوشت دوسرے قیدیوں کو پلائو میں پکا کر کھلایا جاتا ‘ اس قسم کی تحریریں عرصہ پہلے ہم خود پڑھ چکے ہیں’ تاہم ان میں صداقت کتنی ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ‘ جبکہ افغانستان میں ایسی کسی صورتحال کی آج تک نشاندہی نہیں کی گئی ‘ شہنشاہ ایران کے خلاف انقلاب کی بنیاد مذہبی بنیادوں پر بانی تحریک امام خمینی نے رکھی اور جب ان سے شہنشاہ ایران زچ ہو کر بے بس ہوگیا توانہیں ملک بدر کر دیا ‘ تب انہوں نے فرانس میں طویل عرصے تک مقیم رہ کر اپنی جدوجہد جاری رکھی اور انکی تقاریر کیسٹوں کے ذریعے بیرون ملک سے سمگل ہو کر ایران کے کونے کونے میں پھیلتے رہے’ جبکہ ا شرف غنی کے خلاف عوامی سطح پر کوئی انقلاب برپا نہیں کیا گیا ‘ بلکہ افغانستان کے عوام ان کی حکومت میں زیادہ آسانی سے سانس لیتے ‘ زندگی خوش و خرم گزارتے رہے ہیں ‘ شہنشاہ ایران کے خلاف ان کی پالیسیوں کے خلاف اندر سے انقلاب برپا ہوا اور رفتہ رفتہ جڑ پکڑتا رہا ‘ جبکہ اشرف غنی یا ان سے پہلے حامد کرزئی کی حکومتوں کے خلاف اگرچہ تحریک طالبان کا تعلق بھی افغانستان کے اندر ہی سے تھا ‘ تاہم ایران کے عوام کے برعکس افغان عوام میں کابل حکومت کے خلاف وہ جذبات ابھارنے میں ناکام رہی اور اس کا ثبوت گزشتہ رز ہزاروں افراد کا ملک سے انخلاء کے لئے امریکی جہاز پر سوارہونے کے نتیجے میں دو افراد کی بلندی سے گر کر زندگی سے ہاتھ دھونے کا المناک واقعہ ہے اور تادم تحریر ہزاروں خاندان اب بھی ملک بدری پر آمدہ دکھائی دیتے ہیں ‘ ا گرچہ اس حوالے سے ایک خوش آئند خبر طالبان کا وہ حوصلہ افزا اعلان ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اسی ضمن میں انہوں نے نہ صرف عام معافی کا اعلان کر دیا ہے بلکہ ہر طبقے کے حقوق کے تحفظ خصوصاً خواتین کو تعلیم اور دیگر ذمہ داریوں میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے ‘ جسے یقیناً عالمی سطح پر سراہا جائے گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ چین نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا عندیہ دیا ہے ‘ جبکہ چین نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقتدار کی پرامن تبدیلی کو یقینی بنائیں ‘ دوسری جانب سعودی عرب ‘ امریکہ ‘ روس اور بعض دیگر ممالک نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا مشروط عندیہ دیا ہے اور طالبان کی جانب سے بھی حوصلہ افزا اعلانات سامنے آرہے ہیں ‘ جنہیں خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے ادھر گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغاستان کی صورتحال پر بحث و تمحیص کے بعد کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تمام فریق قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے یقین دلائیں کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ یہ تو خیر چند جملہ ہائے معترضہ تھے جو مقطع میں سخن گسترانہ بات کی طرح آگئے ‘ اصل موضوع توشہنشاہ ایران اور اشرف غنی کی خود ساختہ ملک بدری میں قدر ہائے مشترک یا پھر غیر مشترک کی نشاندی کرنا تھی اور اب آتے ہیں ایک اہم قدر مشترک کی جانب یعنی دونوں اپنے اپنے ملک سے”رخصت” ہوتے وقت دولت کے انبار لیکر روانہ ہوئے تھے ‘ شہنشاہ ایران کے تو خیر بعض ممالک میں بنکوں میں ڈالر اور سٹرلنگ پائونڈز موجود تھے جبکہ اپنے ساتھ بیش قیمت ہیرے جواہرات بھی لیکر بھاگے تھے اور چونکہ اس دور میں باہر کے بنکوں میں محفوظ رکھنے کے لئے غیر ملکی کرنسی کی کوئی حد نہیں تھی اس لئے انہیں اس حوالے سے کوئی مشکل نہیں آن پڑی تھی جبکہ اشرف غنی کا مسئلہ یہ ہے کہ اب عالمی منی لانڈرنگ کی گرفت روز بہ روز سخت ہوتی جارہی ہے اس لئے انہوں نے شاید یہ سوچ کر کہ انہیں اپنی مدت صدارت پوری کرنے تک کون کرسی صدارت سے اتار سکتا ہے باہر کسی ملک میں اکائونٹ ہی نہیں کھولا ہو گا اور اگر ہو گا بھی تو ہاں ڈالر کے انبار نہیں لگا سکا ۔ اگرچہ حالات کا رخ دیکھ کر انہیں اپنے ہاں کے منی چینجرز کے ذریعے جمع شدہ ڈالر باہر منتقل کرکے کسی آف شور کمپنی میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے تھی مگر سچ کہا ہے کسی نے کہ کل کس نے دیکھا ہے اس لئے فارسی کے ایک مقولے کی مانند تدبیر کند بندہ’ تقدیر زند خندہ ‘ تاہم اتنی دولت جمع کرکے جہاز کے ذریعے باہر منتقل کرنے کا فائدہ کیا اور روہ دولت کس کام کی کہ جب
شہنشاہ ایران کی مانند ملک سے روانہ ہونے اور ابتداء میں اپنی منزل کا تعین کرنے کے باوجود تاجکستان میں ان کے طیارے کو اترنے ہی نہیں دیا گیا یوں انہیں عمان جانا پڑا ‘ لیکن وہاں سے بھی موجودہ صورتحال میں انہیں عارضی پناہ کا موقع دیا گیا اور اگلی منزل امریکہ بتائی جا رہی ہے ‘ اب ان سطور کے شائع ہونے تک ان کا مستقل ٹھکانہ کونسا ہو گا ‘بالآخر پتہ چل جائے گا ‘ حالانکہ وہ اس سے پہلے امریکہ میں کئی برس تک مقیم بھی رہے ہیں اور وہاں کی ایک یونیورسٹی کے ساتھ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک بھی رہے ہیں ‘ مگر امریکی اپنی طوطا چشمی کے لئے خاصے مشہور ہیں اور ماضی میں شہنشاہ ایران کے ساتھ جو”ناروا سلوک” امریکیوں نے روا رکھا تھا اور انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کیا تھا حالانکہ وہ ساری زندگی امریکی مفادات کے لئے خطے میں کردار ادا کرتا رہا ‘ اس کے بعد اور کئی ممالک نے بھی انہیں امریکی دبائو پر مستقل قیام نہیں کرنے دیا پھر مصر نے انہیں سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کرکے اپنے ملک میں ٹھہرایا۔سو دیکھتے ہیں کہ بالآخر امریکہ بھی انہیں کب تک ٹھہرانے پر آمادہ ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار