lahore-minar-e-pakistan-incident

لاہور واقعہ اور ہمارافسوس ناک طرزعمل

متمدن دنیا سے بہت دور سربفلک پہاڑوں کے دامن میں تاحدنگاہ دیوقامت درختوں اور گھنے جنگلات
کے بیج خونخوار بھیڑیوں اور درندوں کے چنگل میں پھنسی ایک سہمی ہوئی نازک ہرنی کے چہرے پر خوف اور
بے بسی کے تاثرات کا اگر آپ نے نیشنل جیوگرافک جیسے چینلز پر مشاہدہ نہیں کیا تو ازراہ کرم! کسی گلی کی نکڑ یا
کسی چوک پہ کھڑے بات بات پر غیرت کھانے والوں کی تاڑنے والی نظروں سے خائف سکول وین کے
انتظار میں کھڑی کسی معصوم سی لڑکی کے چہرے پر رونما ہونے والے خوف، وحشت اور شرمندگی کے تاثرات
کا اتارچڑھائو دیکھیں تو آپ بھی بھیڑیوں میں گھری ہرنی کی بے بسی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ مشاہدہ علوم انسانی اور شعوری ارتقا کی پہلی سیڑھی ہے مشاہدہ ہی انسانی علم کا بڑا ماخذہے لہذااگر
آپ اپنی قوم کی اخلاقی گراوٹ، ذہنی پستی، فکری خباثت اور شعوری غلاظت کا اندازہ لگانا چاہتے ہوں تو کسی
عورت کے گزرتے وقت راہ میں کھڑے یا بیٹھے مردوں کی تاڑنے والی نظروں کا ذرا عمیق مشاہدہ کریں آپ بھی
سعادت حسن منٹو کی طرح یہی سوچیںگے کہ ہمارے ہاں عورت ایک گوشت کی دکان ہے جسے کتوں کی مانند ہم
بھنبھوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہم اجتماعی طورپر اخلاقی لحاظ سے بانجھ ہوچکے ہیں ہر اخلاقی قاعدے اور کلیے سے آزاد۔ ہمیں
اپنی تہذیب و روایات کی پرواہ ہے نہ ہمیں اپنی مذہبی تعلیمات کی کوئی فکر ۔ہاں! مذہبی احکام کو
دوسروں پر ٹھونسے میںہمارا کوئی ثانی نہیں۔
یوم آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں مینار پاکستان جیسے یادگار مقام پرہماری قوم کے شاہینوں
نے جس اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ہماری پرکھوں کی روحیں بھی تڑپ گئی ہوںگی۔ ہم جو
مشرقی اقدار کی ثناخوانی کرتے ہوئے سینہ پھلالیتے ہیں ،بات بات پراسلام اسلام کا دم بھرتے ہیں اور
آقائے نامدار محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں موقع ملتے ہی سینکڑوں لوگون کی موجودگی
میں تہذیب کا جامہ اتارکر ایک خاتون کی عزت کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں۔
لاہور میں ہوئے اس لخراش واقعے کے بعد جو ہمارااجتماعی ردعمل تھا وہ بھی نہایت مایوس کن اور معروضی
حقائق سے مکمل بے بہرہ ہونے کا ثبوت تھا ۔ہمارے ہاں ایک بڑے طبقے نے دست درازی کی شکار
اس خاتون کے خلاف فرد جرم مرتب کرنا شروع کردی اورسوال کیا جانے لگا کہ یہ خاتون مردوں
کے ہجوم میں گئی ہی کیوں؟
اسی طرح عورت کا لباس بھی موضوع بحث رہا اور جو اوباش اس مذموم جرم کے مرتکب ہوئے
ان کی مذمت اس طبقے کی جانب سے کی تو گئی لیکن اگر مگر کے ساتھ۔ انتہائی ادب کے ساتھ
اپنے ان دوستوں سے عرض ہے کہ خدا نے نظر کی حفاظت کا حکم انفرادی طور پر ہر مسلمان کو
دیا ہے اور بلا تفریق مرد وخواتین سب کو سخت تاکید کے ساتھ اپنی نظروں میں حیا پیدا
کرنے کی تلقین کی گئی ہے لہذا کسی خاتون کا لباس مردوں کے لئے ہرگز گناہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
کسی جرم کے لئے یہ جواز تراشنا کہ اگلا بھی کسی قاعدے اور قانون کی خلاف ورزی کررہا تھا
نہایت بھونڈا اور عقل وفہم کے اصولوں کے خلاف طرزعمل ہے۔
خواتین کے لئے بھی خدا نے قوانین نازل کیے ہیں لیکن جب ایک خاتون کسی قاعدے کی خلاف
ورزی کرے تو کیا مردوں کا پھر اس خاتون کی عزت و ناموس اچھالنا جائز ہوجاتا ہے ؟
یہ ایک انتہائی غلط رویہ ہے اور ہمارے ان نادان دوستوں کے اس طرزعمل سے معاشرے
میں موجود بھیڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کیونکہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ کسی عورت
پر دست درازی کرنے کے بعد معاشرے کا ایک طاقتور اور موثر طبقہ ان کی پشت پر موجود رہے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثییت قوم اپنا محاسبہ کریں اور ریاستی سطح پر ان عوامل و محرکات کا
ہمہ جہت جائزہ لیںجو معاشرے میں درندگی ،ہوس پرستی اور جنسی بے راہ روی کا باعث بن
رہے ہیں اور کسی بھی دلخراش واقعے کے رونما ہونے کے بعد متاثرہ خاتون کے لباس
اور نقل وحمل پر بے جا تبصروں کی بجائے پوری قوت کے ساتھ دست درازی کرنے والوں
کے لئے خوامخواہ کے شرعی جواز نہ ڈھونڈیں بصورت دیگربنت حواکہیں بھی محفوظ نہیں رہے گی۔

بلاگر: سید فرحان

ادارہ مشرق ٹی وی کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔