طالبان کے خلاف مزاحمت

ویسے تو طالبان نے ہر سال 19اگست کو یو م آزادی منانے کا اعلا ن کیا ہے حالانکہ کٹھ پتلی حکمران بھارت کے یو م آزادی 15اگست کے روز ہی کا بل خالی کرکے فرار ہوگئے تھے ، بہر حال جس طور وہ فرار ہوئے اس نے بہت سے کر توت کھول دئیے ، اشرف غنی افغان عوام کی لو ٹی دولت لے کر پہلے ازبکستان فرار ہوئے تاہم وہا ں جائے پنا ہ نہ ملنے پر ان کا رخ عرب اما رات کی طر ف ہو ا اس طرح ان کو اومان میں پنا ہ گیر ی کا مو قع فراہم ہو گیا ، اشرف غنی کے سب سے بڑے حریف عبداللہ عبداللہ اپنے پر انے مسکن پر ہی ٹھہر ے رہے ہیں انہوں نے راہ فراراختیار نہیں کی البتہ اشرف غنی حکومت کے سینئر نا ئب صدر امراللہ صالح اپنی لنگوٹیا سمیٹتے ہوئے وادی پنچ شیر کی طرف فرار ہوگئے ان کو معروف سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود نے پناہ دیدی وادی پنچ شیر ایک ایسا درہ ہے جو قدرتی طور پر اپنے بلند بالا پہاڑیو ں کی وجہ سے بہتریں حصار ہے چنا نچہ اسی بناء پر گزشتہ دور میں طالبان اور دیگر قوتین اس کو فتح کرنے سے عاجز رہی تھیں ، اس کے علا وہ پا کستان کے بقول افغانستان سے ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد بھی بذریعہ طیا ر ہ اسلا م آباد پہنچا ، یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سرکا ری وفد جس میں اشرف غنی رجیم کے وہ سارے کے سارے عنا صر مو جو د تھے جو اب تک پاکستان کی شدید ترین مخالفت کا بیٹرہ اٹھائے ہوئے تھے ان میں افغانستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر رحما نی بھی تھے جنہو ں نے پاکستان کے پارلیمانی وفد کو افغانستان آنے سے روک دیا تھا اور پاکستانی طیارہ کو کا بل ایر پورٹ پر اترنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی ، جبکہ پاکستان نے اس وفد کا سرکا ری طور پر خیر مقدم کیا اور وزارت خارجہ میں وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمو د نے نہ صرف استقبال کیا بلکہ ان کے ساتھ بات چیت بھی کی ، اب یہ پتہ نہیں کہ یہ اعلیٰ سطحی وفد کس حکومت کی نما ئندگی کررہا تھا کیو ں کہ جب یہ وفد پاکستان وارد ہوا تو افغانستان میں کسی کی حکومت نہیںتھی البتہ طالبان نے کنٹرول سنبھال رکھاتھا ، ان فراریو ں کے اقدام سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ فرار کی راہوں سے طالبان کے خلا ف مزاحمت کا ارادہ رکھتے ہیں چنانچہ امراللہ صالح نے وادی پنچ شیر پہنچتے ہی بیا ن دیا کہ وہ افغانستا ن کے حکمر ان ہیں کیو نکہ آئین افغانستان کے مطا بق اگر صدر ریاست استعفیٰ دیدے یا کسی وجہ سے اپنے فرائض انجا م دینے سے معذور ہوجائے تو پھر نائب صدر کوصدر ریاست کے اختیار خود بخود منتقل ہو جاتے ہیں ، جس کے بعد تاجکستان میںافغانستان کے سفارت خانے سے یہ اطلا ع آئی کہ وہا ں اشرف غنی کی تصویر اتار کر اس کی جگہ امر اللہ صالح کی تصویر بحیثیت صدر افغانستان آویزاں کردی ہے ۔ اس عمل کے بعد طالبان کے خلا ف ان عنا صر کی طرف مزاحمت کا پر وگرام بھی واضح ہو گیا وہ اس طرح کہ سابق کما ندڑ احمد شاہ مسعود جن کے بارے میں ہمیشہ مغربی میڈیا نے افسانوی کہا نیا ں تشہیر کر کے ان کو ایک عظیم کما نڈر کے روپ میں پیش کیا ہے ، حیر ت کی بات یہ ہے کہ امراللہ صالح اعلیٰ تعلیم یا فتہ تو تسلیم کیے جا تے ہیں مگر ان کو مزاحمت کا کوئی تجربہ نہیں ہے اسی طرح احمد مسعود بھی کسی اچھی یو نیورسٹی سے تعلیم یا فتہ ہیں مگر وہ بھی کسی مسلح مزاحمتی قوت کا تجربہ نہیںرکھتے ، کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ افراد سابق وار لا رڈز اور امریکا کی تربیت یافتہ افغان فوجیوں کا تعاون حاصل کریںگے ، یہاں یہ واضح رہے کہ سابق وار لا رڈ ز اب کوئی عسکر ی قوت نہیں رہ ہے ہیں طالبان نے اپنے پہلے دور میں ان کو اس معاملے میں اپا ہج کر دیا تھا بعد ازاں امریکا نے اپنے تسلط کے ایام میں ان کو اتنا مالدار کر دیا کہ وہ مسلح قوت کے مالک رہنے کہ بجائے پیسہ بٹورنے کے دلدادہ بن کر رہ گئے ۔ اب یہ جائز ہ لینے کی ضرورت ہے کیا کوئی امریکا کی طرح غیر ملکی طاقت افغانستان آکر اشرف غنی رجیم یا طالبان مخالفین کی مدد کر ے گی یا کر سکتی ہے طالبان کی کا میا بیوں کے پیش نظر جس طرح بھارت تلملا رہا ہے اور کھسیاناہو کر بے کل پسلیٹاں ما رہا ہے اس کے اس کسما نے سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ طالبان مخالفین کا داتا بن جائے لیکن طالبان بھی بھارت کے خلاف ادھا ر کھائے بیٹھے ہیں ، چنا نچہ اگر بھارت نے عقل سے کام نہ لیا تو وہ اپنے لیے طالبان کی صورت میںکام ڈھونڈ لے گا ۔ بہر حال اس وقت یہ کاوش کی جارہی ہے کہ افغانستان کے متوسط طبقہ کو طالبان کے خلا ف میدان میں لیاجائے کیو ں کہ طالبان کے آنے اس اس طبقہ کو اندیشہ پیدا ہوا ہے کہ وہ خسارے میں چلے گئے ہیں یہ درمیانہ طبقہ شہر ی آبادی کا حصہ ہے امریکا نے افغانستان میں اپناتسلط جمانے کی غرض سے افغانستان کے شہری علاقوں کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی جس سے یہ شہری طبقہ محظوظ ہو ا جبکہ دیہی طبقہ نے طالبان کا بھر پور ساتھ دیا علا وہ ازیں امریکا اور نیٹو کے ممالک نے بھی افغانستان کے دہی علاقوں کو یکسر فرامو ش کیے رکھا جس کی وجہ سے ایک طبقاتی کشمکش پیدا ہو ئی ہے کابل ایئرپور ٹ پر جو افراتفری پیدا کی گئی ہے وہ اسی شہری طبقہ کے پس منظر ہے اسی طر ح جلا ل آباد میں بھی اسی طبقہ کو جھنڈا کے آڑ میں آزما یا گیا ہے ، تاہم یہ شہری طبقہ مزاحمت کی سکت نہیںرکھتا علا وہ ازیں امریکا کے دور میں افغانستان میں پوست کی کا شت کا کاروبار خوب پھلا پھولا جس کا براہ راست اس شہر ی طبقہ کی خوشحالی کو اوج ملا چنا نچہ طالبان ان چال بازیو ں سے واقف ہیں علا وہ ازیں امریکا اور برطانیہ کی یہ چال رہی ہے کہ جہاں بھی وہ اپنا اثررسوخ اور تسلط جمانا چاہتے ہیںوہاں اقلیتی طبقہ کو آگے لا تے ہیں چنانچہ افغانستان کی اکثریت پشتونوں کے مقابلے میں ازبک ، تاجک اور ہزارہ قوم کو آگے لایا گیا جن کو ہنو ز تشویش ہورہی ہے ، طالبان کتنے حکمت والے ہیںانہوں نے دوحہ معاہد ہ کرتے وقت امریکا سے یہ تسلیم کرالیا کہ وہ بیس سال تک انہوں نے افغانستان کی بربادی میں کر دار ادا کیا ہے اس کے عوض بیس سال تک افغانستان کی تعمیر نو کے لیے تین ارب ڈالر فراہم کرتے رہیں گے ، گویا طالبان نے تعاون جنگ کو تعمیر نو کی امداد کے نا م پر وصولی کو تسلیم کرالیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''