Tree-cutting-1

اے کاش کبھی ایسا نہ ہوتا

میں ہمیشہ نماز پڑھنے کے بعد اس کو دیکھتی رہتی ، اور دعا کرتی تھی۔

میں جب تہجد کے لئے اٹھتی ، اس وقت بھی وہ اپنی موجودگی کا مجھے احساس دلاتا تھا۔

میری جب بھی اس پہ نظر پڑی ، تو اسکی نگاہیں مجھ پہ ہی جمی نظر آئیں۔
ہربار میری امریکہ آنے کے بعد گھر میں داخل ہوتے کے ساتھ ہی وہ مجھے ہمیشہ خوش آمدید کہتا تھا۔میں نے اس کو پت جھڑ ،خزاں ،بہار اور برف سے ڈھکے سفید لباس کے روپ میں بھی دیکھا تھا۔اس کے ہر روپ سے میری شناساء تھی۔

اس کو میں نے سبز رنگ میں ملبوس جھومتے ، رنگ بر نگی تتلیوں ، پرندوں اور گلہریوں کو اس کےساتھ اٹکیلیاں کرتے دیکھا،تو کبھی سرد ،خشک اداس موسم کی شاموں میں بھی ۔۔ میں اکثر اس کو اپنے گھر کی بالائی منزل کی کھڑکی سے خاموش تکتی رہتی تھی ، مگر وہ میری خاموش زبان کو بھی سمجھتا تھا۔

مگر آج کیا ہوا۔۔

اچانک کچھ لوگ ہماری ہنستی بستی زندگی میں ، اپنی گاڑیوں اور ٹرکوں میں سوار تیز دھاراوزاروں کےساتھ ہمارے علاقے میں داخل ہوگئےاور پھر انہی لوگوں نےمیری آنکھوں کے سامنے اسکو اپنے گھیرے میں لے لیااور بلا جھجھک اس پرچڑھ دوڑے،اپنے تیز دھار اوزاروں سے اس کو گھائل کرتے رہےاس نیکوء مذاحمت نہیں کی اورخاموشی سے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتارہا ور پھردیکھتے ہی دیکھتے اپنی جان خالق حقیقی کےحوالے کردی ۔

میں چپ سادھے یہ منظردیکھتی رہ گئی مگر مجبورو بے بس تھی اس شخص کی طرح جن کے اپنے پیارے اورعزیز وینٹیلیٹر پرموت سے لڑتے لڑتے آخری سانسیں بھی گنوا بیٹھتے ہیں اورہم مانیٹرپران کی دل کی دھڑکن کوسیدھی لائن میں بدلتے دیکھتےرہ جاتے ہیں

آج میں نے اسکو ہر وار سہتے دیکھا اسکے بازو کٹتے دیکھے اسکے زمین میں جمے مضبوط پیر اکھڑتے دیکھے اس کو زمین پہ گرتے ہوئے دیکھا اس کے بے جان بدن کو رسیوں سے بندھے ،کھسٹتے دیکھا مگر میں خاموش تماشائی بنی یہ منظر دیکھتی رہی میں بے بس تھی بہت مجبور تھی کاش میں اسکو بچا سکتی ۔

کاش یہ جیتا جاگتا ،ہرا بھرا بلند ، گھنا ،سایہ دار درخت زندہ رہتا قائم رہتا ۔

بلاگر:سیدہ عفت جبار ( ڈپٹی کنٹرولر ، پی بی سی) نیو یارک ،امریکہ

ادارہ مشرق ٹی وی کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے