شاہ محمود قریشی کا صائب مشورہ

وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ 90ء کی دہائی کی صورتحال سے بچنے کے لئے افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ‘ گزشتہ روز یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے دوران افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال اور علاقائی امن وا مان کے حوالے سے تبادلہ خیال کیاگیا ‘ اس موقع پرپاکستان کے وزیر خارجہ نے یورپی یونین کے سربراہ خارجہ امور کو بتایا کہ جرمنی ‘ ہالینڈ ‘ بیلجیئم اور ڈنمارک کے وزرائے خارجہ سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور خوشی اس بات پر ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ہم سب کے نکتہ نظرمیں ہم آہنگی پائی گئی ‘ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کے قیام اور سیاسی تصفیے کاحامی ہے ‘ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم چاہتے ہیں کہ افغان شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ‘ وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ قیادت کی جانب سے منظرعام پر آنے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں، کابل میں جاری مذاکرات کی کامیابی دیرپا امن کے لئے ناگزیر ہے ‘ کیونکہ کابل میں قیام امن نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ 90ء کی دہائی کی صورتحال سے بچنے کے لئے افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ‘ ادھر گزشتہ روزایک عرب ٹی وی سے ایک انٹرویو میں وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان نے بہت الزامات برداشت کر لئے ‘ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات اور انخلاء کے عمل کو ساتھ ساتھ چلتے رہناچاہئے ‘ لیکن پاکستان سے مشورے کے بغیر ہی انخلاء کر دیا گیا ،اب ا پنی ناکامیوںکی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کے خواہشمند ہیں جہاں انسانی حقوق کا احترام ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کے معاملات پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے میں حالیہ ہفتوں کے دوران منعقدہ دو اجلاسوں میں جوبھارت کی سربراہی میں منعقد ہوئے جس طرح پاکستان کو نکال کر بھارت نے اپنی انا کی تسکین کی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بلا سوچے سمجھے امریکہ نے یکطرفہ طور پر افغانستان سے انخلاء کرکے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ‘ نہ صرف طے شدہ پروگرام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وقت سے پہلے اپنی افواج نکال لیں بلکہ افغانستان میں ایک افراتفری کی سی صورتحال پیدا کی گئی جس کا بظاہر مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ وہاں 90ء کی دہائی کی طرح یا تو خانہ جنگی کو ہوا دی جائے یا پھر طالبان معمولی سی بھی غلطی کرلیں تو دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ یہ امن نہیں چاہتے اور ایک بار پھر افغانستان میں غیر ملکی افواج کو داخل کرنے کا جواز پیدا کیا جائے ،تاہم طالبان نے اب کی بار جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے پیچھے گزشتہ بیس سال کے تلخ تجربات ہیں’ انہیں بھی عالمی برادری سے نمٹنے کا گر آگیا ہے یہ الگ بات ہے کہ مغربی میڈیااب بھی یکطرفہ پروپیگنڈہ کرکے صورتحال کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے جس کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہو گا ‘ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جبکہ طالبان نے حالات سے بہت سبق سیکھ لیا ہے اور وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں ‘ ممکن ہے اس افراتفری میں ‘ جن کا انہیں افغانستان پر دوبارہ تسلط قائم کرنے میں سامنا رہا ‘ اور انہوں نے اپنا کنٹرول قائم کرنے میں نادانستگی میں کچھ ایسے اقدامات کئے ہوں جن کی وجہ سے وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں آرہے ہیں ‘ تاہم مجموعی طور پر ان کے اقدامات بہتری کی جانب پیش قدمی ہی قرار دیئے جا سکتے ہیں ،اپنے مخالفین کے حوالے سے عفود و درگزر کی پالیسی اختیار کرنے سے افغانستان میں خوف و ہراس کی فضا رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے ،خصوصاً خواتین کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں شکوک و شبہات ختم ہو رہے ہیں ‘ تاہم معاملات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے ابھی مزید وقت درکار ہے ‘ اس لئے عالمی برادری کو وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی جومشورہ دیا ہے کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ‘ موجودہ حالات میں اس سے بہتر مشورہ اور کوئی نہیں ہو سکتا ‘ اور عالمی برادری کا بھی فرض ہے کہ وہ طالبان انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرے حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''