افغانستان کی تعمیر نو کے لئے ضروری اقدامات

اس بات میں نہ کوئی شک ہے اور نہ ہی دو رائے کہ افغانستان کے عوام گزشتہ نصف صدی میں ناقابل بیان اور ناقابل برداشت آلام و مصائب سے گزرے۔ شاید ہی کوئی گھرانہ ہوجن کے دوسے زیادہ افراد زندگی کی بازی نہ ہارے ہوں یا معذوری کی زندگی کے شکار نہ ہوئے ہوں۔ کرزئی کی حکومت وجود میں آئی تو عوام نے امید و توقعات باندھیں کہ اب شاید یہاں کہیں نارمل زندگی کے ایام نصیب ہوں ‘ لیکن اس کی حکومت کے طویل سال رائیگاں گئے ‘ وہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات اور افغانستان میں مل جل کر حکومت سازی کے اقدامات کرتے ‘ تو شاید کچھ بہتری پیدا ہوتی۔ لیکن افغان مقتدروں کو ڈالر کمانے اور جمع کرنے کاایسا موقع ملا تھا کہ ہر آدمی کی کوشش اورخواہش تھی کہ بس”بابر بہ عیش کوشش کہ عالم دوبارہ نیست” کرزئی سے لیکر اشرف غنی اور ان کی کابینہ کے ارکان سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے نکلے کئی غیر جانبدار رپورٹوں میں امریکی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو بتایا گیا کہ افغانستان میں حکومتی طبقات بدترین کرپشن میں ملوث ہیں اور امریکی عوام کے ٹیکس کا جو پیسہ اربوں ڈالر کی صورت میں افغانستان میں انفراسٹرکچر ‘عوام کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود اور افغان افواج کی تربیت پر خرچ ہونا تھا ‘ وہ اس کرپٹ اشرافیہ کے بنک اکائونٹس میں چلا گیا ۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہی ہے کہ اشرف غنی افغان سرزمین چھوڑتے ہوئے کروڑوں ڈالر بھی ساتھ لے گئے اور مبینہ طور پر خلیجی ملک کے بنکوں میں بھاری رقوم ان کے اکائونٹ میں موجود ہیں۔
اب ایسے تیسے جیسے بھی انہوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے تو امریکہ اور یورپ اور روس و چین اور پڑوسی ممالک کا فرض بنتا ہے کہ ان کو حکومت بنانے اور چلانے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ ان کی آزمائش اور افغان عوام کی صعوبتوں میں کمی لانے کی خاطران کو موقع دینا ہر لحاظ سے حق پر مبنی ہو گا۔ لیکن اس وقت ہو کیا رہا ہے ؟ یہی کہ افغانستان کے اثاثے منجمد کرائے گئے اور کابل ایئرپورٹ پرایک عجیب کنفیوژن اور افراتفری پیدا کرکے طالبان کو ان کی حکومت سازی کے حق سے دور رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ وادی پنج شیر کا مسئلہ الگ سے ابھارا اور اکسایا جارہا ہے ۔ پاکستان کی حالت تو ہمیشہ ایسے مواقع پر گو مگو کی سی رہی ہے ۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی خاطر افغانستان میں جلد سے جلد قیام امن میں اپنا بہت ضروری کردار جس کی طرف ایک دنیا منتظر ہے ادا کرے ورنہ اگر وہ اہم لحہ گرفت میں نہیں لایا گیا تو سب سے زیادہ نقصان اور پریشانی پاکستان ہی کو اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔ مغربی میڈیا اس وقت افغانستان کی ایک ایسی تصویر پیش کر رہا ہے جو بہت پریشان کن ہے ۔ شیر خوار بچوں کو باڑھ اور جنگلوں کے اوپر سے بھیڑ بکری کے بچوں کی طرح اٹھاتا ہوا دکھایا جارہا ہے ایئر پورٹ کی ایسی تصاویر میڈیا پر عام ہیں کہ گویا پورا افغانستان امریکہ اور یورپ جانا چاہتا ہے اوریہ گویا صرف طالبان کی وجہ سے ہو رہا ہے حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے امریکہ اور یورپ جانے کے لئے عالم اسلام کے ہر ملک کے باشندے اسی طرح تائولے اور بائولے ہوتے ہیں جس طرح ان تصاویر میں نظر آتا ہے ۔
کابل ایئرپورٹ پر پانچ دس ہزار وہ لوگ ہیں جو گزشتہ بیس برسوں میں مراعات اور ریڈ زون کی زندگیوں کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔ لہٰذا اب ان کو یہاں مزہ کہاں آتا ہے طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے یہاں تک اشرف غنی کو بھی واپس آنے کی دعوت ہے ۔ لہٰذا ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان اشرافیہ توبہ تائب ہوکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جلد سے جلد کوئی ایسی حکومت قائم کرے جو مصیبت زدہ افغان عوام کے گہرے نفسیاتی ‘ معاشی اور سماجی زخموں پر پھاہا رکھ سکے ۔ جس طرح گل بدین حکمت یار نے طالبان کی حمایت کرکے بھارت کو بہت بروقت اور برجستہ جواب دیا ہے کہ بس اب اپنا میل کچیل افغانستان میں صاف کرنے سے باز رہیں۔
امریکہ اور مغرب کا فرض ہے کہ اس عوام کی خاطر جن کے حقوق کا ورد اور ذکر صبح و شام ہوتا ہے ‘ افغانستان کے دس ارب ڈالر ریلیز کر دے اور آئی ایم ایف افغانستان کے لئے کوئی مارشل پلان پیش کرے تاکہ افغانستان کی تعمیر نو ہو اور افغان عوام افغانستان ہجرت کی بجائے دن رات ایک کرکے اپنے ملک کو آباد کریں ورنہ اس طرح اگر لوگ افغانستان سے جاتے رہے اور یہاں پیچھے حکومت چلانے کے لئے مناسب افراد میسر نہ ہوسکے تو خلاء پر کرنے کے لئے پڑوسی ممالک جس میں پاکستان ‘ ایران ‘ روس اور چین سرفہرست ہیں ضروری کوئی تگ و دو کریں گے لیکن ایسے میں پھر یہاں سرد جنگ کی کشمکش کا خطرہ پیدا ہو گا اور افغان عوام کو ایک نئے دریا کے پار اترنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن