Mike Mullen

افغانستان بارے ہماری حکمت عملی غلط تھی،مائیک مولن کا اعتراف

ویب ڈیسک: ریٹائرڈ ایڈمن مائیک مولن ، صدر جارج ڈبلیوبش اوربراک اوباما کےماتحت اعلی امریکی فوجی افسراب کہتے ہیں کہ ہمیں ایک دہائی قبل اپنی فوجیں نکالنی چاہیےتھیں جب اسامہ بن لادن مارا گیااس سےپہلے وہ افغان قوم کی تعمیر کی پالیسی کے حامی رہےتھے۔

مولن اس بش جونیئر اور اوباما دور کےاب تک کےواحد سینئرافسر ہیں جنہوں نےعوامی طورپراعتراف کیا ہےکہ امریکی پالیسی اوروہ ذاتی طورپرشدیدغلطی پرتھے۔

مولن ،جو اکتوبر2007 سےستمبر2011 تک جوائنٹ چیفس آف سٹاف کےچیئرمین تھےسب سےپہلے اے بی سی نیوز پراپنی غلطی کا اعتراف کیا۔

مولن نے تسلیم کیا کہ2009 میں اس نےاور دیگرتمام اعلی افسران اورعہدیداروں نےاوباما کومشورہ دیا کہ وہ افغانستان میں مزید 40,000فوجی بھیجیں اور ایک قوم سازی کی حکمت عملی اپنائیں جس کی بائیڈن مخالفت کرنے میں تنہا تھا جس کاموقف تھا کہ امریکہ صرف 10 ہزاراضافی فوجیوں کوتعینات کرے اور ان کی سرگرمیوں کوافغان فوج کی تربیت اورپاک افغان پاک سرحد پر دہشت گردوں سے لڑنے تک محدود رکھے۔

مزید پڑھیں:  پاکستان اور ایران کا تجارتی حجم 10ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق

مولن نے کہا کہ "ہم نے بدعنوانی کے اثرات کو کم سمجھا۔””القاعدہ کو دوررکھنا”واضح طورپرامریکی مفادات میں تھا،لیکن "یہ افغانستان میں رہنےکی کوئی وجہ نہیں تھی۔” ستمبر2009 میں سینیٹ کی ایک سماعت میں مولن نےگواہی دی ،”افغان حکومت کو لوگوں کی نظر میں کچھ قانونی حیثیت رکھنے کی ضرورت ہےبنیادی مسئلہ کرپشن ہےیہ خطرہ اتنا ہی اہم ہےجتنا کہ طالبان۔

انہوں نے کابل بینک میں 2011 کے ایک اسکینڈل کو یاد کیا،جس میں افغان رہنمائوں نے 850 ملین ڈالرغبن کیے اور اسے ذاتی آسائشوں پرخرچ کیا۔ مولن نےیاد دلایا ، "ہمارے پاس سامان تھا۔ اینٹی کرپشن ایجنسی ، جس کی سربراہی امریکی حکام کررہےتھے،کواس قسم کے جرائم کے لیےبنایا گیا تھالیکن انتظامیہ نے”مقدمہ نہ چلانےکاانتخاب کیا،”

مزید پڑھیں:  حقوق نہ ملے توچھیننابھی جانتے ہیں،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

دوسری بڑی غلطی ، مولن نے کہا: "ہم نے اپنی موجودگی کی اہمیت کوکم سمجھاجو کچھ ہم کررہے تھے۔” سب سے پہلے ، امریکی ٹرینرز نے ایک افغان فوج کو اپنی شبیہ میں بنایا،جو امریکی قریبی فضائی مدد، انٹیلی جنس ،لاجسٹکس ، ہیلی کاپٹر کی نقل وحمل ،مرمت اوردیکھ بھال پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے۔جب یہ جنگی مدد واپس لی گئی تو انہوں نے کہا کہ تباہی تقریبا ناگزیر تھی۔ اس انحصار کا ایک اور ناقابل فہم پہلو بھی تھا "افغان سپاہیوں نے لڑائی کی – دسیوں ہزار ہلاک ہوئے۔” جب انہوں نے دیکھا کہ ہم جا رہے ہیں تو ان سے ہوا نکل گئی ، اور اس طرح انہوں نے طالبان سے معاہدے کیے یا پھر بھاگ گئے۔