تیرے باجرے دی راکھی کیسے میں کر پائوں گی

ریڈیو دور کے ہمارے ایک ساتھی جو ان دنوں ہماری طرح ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ‘کبھی کبھی فیس بک پر دلچسپ پوسٹیں شیئر کردیتے ہیں ‘ویسے تو وہ اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کے اخبارات میں کالم نویسی کا شوق بھی کرتے رہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان سے بطور ڈائریکٹرنیوز ریٹائر ہوئے ہیں اور لکھنے لکھانے کا شوق تو ظاہر ہے اپنے منصب کے تقاضوں کا حصہ رہا ہے ‘ گزشتہ روز انہوں نے بھارت کے ایک کسان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ‘ جس نے اپنی فصلوں کو نظر بد سے بچانے کے لئے ایک بھارتی ایکٹریس سنی لیون کی بڑے بڑے سائز کی تصاویر لگائی ہیں ‘ اپنی یادداشتوں کو بھی کرید ڈالا ہے ‘ گلزار صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے بچپن میں مائیں اپنے بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لئے ان کے گلے میں تعویذ لٹکا دیتیں ‘ ماتھے پر کاجل کا ٹھیکا لگا دیتیں ‘ اور اگر کوئی بچہ بیمار پڑ جاتا تو پھٹکڑی کو گرم توے پر رکھ دیتیں اور وہ پگھل جاتا تو اس میں سوئیاں چبھو دیتیں ‘ اس دور میں نئے مکان کی چھت پر کٹوری رکھ دی جاتی تاکہ مکان نظر بد سے بچا رہے وغیرہ وغیرہ ‘ بلکہ انہوں نے اپنے ہاں کھیتوں کو”اجاڑنے” کا کارن پنجابی فلموں کی ایک ہیروئن انجمن وغیرہ کو قرار دیا ہے کہ وہ فلموں کی شوٹنگ کے دوران اچھل کودکرکے فصل برباد کر دیتی ہیں ۔ ساتھ میں گاناگا کر عوام کو بھی جوش دلا دیتی ہیں کہ
تیرے باجرے دی راکھی کیسے میں کر پائوں گی
ساجن میں گھبرائوں گی۔۔۔
بات اگرچہ نظر بد سے چلی تھی اور اس حوالے سے گلے میں تعویذ ‘پھٹکڑی کو توے پر گلا کر نظر اتارنا ‘ ماتھے پر کاجل سے لکیر کھینچنا کی طرز پر ہمارے ہاں یہ ساری روایات ذرا مختلف انداز میں جاری تھیں مثلاً ڈیرہ اسماعیل خان میں پھٹکڑی کو توے پر گرم کرنا تو اس کے مقابلے میں پشاور میں ایسی بڑی بوڑھیاں نظر اتارنے کے لئے مٹی کی ہانڈی میں تنکوں ‘ ردی کا غذ کے ٹکڑوں وغیرہ کو گرم کرکے ایک پرات(سینک) میں پانی ڈال کر اس ہانڈی کو الٹ دیتی تھیں ‘ اس قسم کی روایات کو انگریزی میں میتھ(Myth ) کہتے ہیں جو ہر معاشرے میں مختلف انداز میں موجود رہے ہیں اب اگرچہ لوگ ان کو دقیانوسی سمجھتے ہوئے ان پر یقین نہیں کرتے ‘ تاہم اس حوالے سے آندھرا پردیش کے ایک کسان نے فلمی ہیروئن سنی لیون کے پوسٹر لگانے کاجو سلسلہ شروع کیا ہے اس پر ہمیں مرحومین تاج سعید اور مختار علی نیئریاد آگئے ہیں دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ‘ او جو قصہ ہم بیان کرنے لگے ہیں اس کے راوی تاج سعید ہی تھے ‘ وہ ہمارے ریڈیو کے ساتھی رہے ‘ انہوں نے بتایا کہ ریڈیو میں آنے سے پہلے وہ مردان شوگر ملز کے مشہور زمانہ رسالے قند کے اردو سیکشن کے مدیر کی حیثیت سے شوگر ملز ہی کے مزدوروں اور کارکنوں کے لئے تعمیر کردہ کوارٹرز میں مقیم تھے ‘ ان دنوں مختار علی نیئر بھی ملز کی کینٹین کے انچارج منیجر کے طور پر کام کرتے تھے ‘ کینٹین میں ملز کے ملازمین کے لئے صبح ناشتے سے لیکر رات کے کھانے تک کا اہتمام کرنا ان کی ذمہ داری تھی ‘جبکہ ملز کے احاطے میں جریبوں پر پھیلی ہوئی زمین پر مختلف ترکاریوں کی نگہداشت اور متعدد بھینسوں ‘ گائیوں کی دیکھ بھال وغیرہ بھی ان کی نگرانی میں ہوتی تھی ‘ چونکہ جانوروں کی تعداد اچھی خاصی تھی اور یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کس بھینس اور کونسی گائے نے کتنا دودھ دیا ‘ اگر کوئی جانور بیمار پڑ جاتا ‘ یا پھر کٹا’ کٹی وغیرہ جننے کی نوبت آتی تو ان تمام معاملات کا حساب کتاب رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ‘ ان بھینسوں اور گائیوں سے حاصل ہونے والا دودھ روزانہ جمع کرکے نوابزادگان کے گھروں کو بھی بھجوایا جاتا جو شوگر ملز کے مالکان تھے ‘ ملازمین کے لئے چائے بنانے ‘ دہی جمانے میں بھی استعمال ہوتا اور بچ جانے والا دودھ مخصوص شیر فروشوں کو فروخت کرکے رقم وصول کی جاتی ‘ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ‘ چنانچہ مختار علی نیئر نے ایک رجسٹر رکھ کر تمام حساب کتاب یعنی دودھ کی آمدن ‘ اخراجات ‘ سبزیوں وغیرہ کا ریکارڈ رکھنے کا انوکھا طریقہ یہ ڈھونڈ نکالا کہ اس دور کی مشہور فلمی ہیروئنوں کے ناموں کی تختیاں ان بھینسوں اور گائیوں کے گلے میں لٹکا کر حاصل ہونے والے دودھ کا مقدار لکھنا شروع کیا ‘ اسی طرح اگر کوئی جانور بیمار پڑ جاتا تو اسے ڈنگر ڈاکٹر(ویٹرنٹی ڈاکٹر کو تب عام لفظوں میں ڈنگر ڈاکٹر کہہ کر پکارا جاتا) کے پاس لے جانے سے پہلے باقاعدہ رجسٹر میں اندراج کیا جاتا ‘ اسی طرح اگر کوئی بھینس یا گائے گابھن ہو جاتی تو اس کے نام کے ساتھ ایک مخصوص وقت کے لئے دودھ نہ ملنے او پھر کٹا کٹی کی پیدائش تک خانہ خالی رکھا جاتا ‘ اس طرح اس دورکی مشہور بھارتی اور پاکستانی فلموں کی ہیروئنوں کے نام کے کارڈ بورڈ ان جانوروں کے گلے میں لٹکے دیکھ کر مردان کے لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان پیدا ہو گیا تھا اور فلانی نے اتنا دودھ دیا ‘ فلانی نے چارہ کھانا ترک کر دیا ہے جیسے فقرے لوگوں کی تفنن طبع کا سامان بہم پہنچاتے تھے ‘ اتنا البتہ ضرور تھا کہ فصلوں کو نظر بد سے بچانے کے لئے سنی لیون کی جیسی تصاویر لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی البتہ فلمی ہیروئنوں کے ناموں سے منسوب بھینسوں اور گائیوں کو دیکھ کر کسی کی توجہ فصلوں کی طرف جاتی ہی نہیں تھی ‘ اور یوں خالص دودھ میں کینٹین میں چائے بنتی تھی اس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اس نے کہا کہ کونسی خوشبو پسند ہے
ہم نے تمہاری چائے کا قصہ سنا دیا

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''