Shazray

طالبان ترجمان کی یقین دہانی

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے ‘ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت خطے کا اہم ملک ہے ہم بھارت کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے کابل اپنے زور بازو سے فتح کیا ‘ پاکستان کاکوئی کردار نہیںطالبان قیادت کی جانب سے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دینے سے بہت سے ممالک اور قوتوں کو تکلیف کا ہونا فطری امر ہے طالبان رہنما کے اس بیان کا سیاق و سباق توواضح ہے لیکن ان کے بیان کو علاوہ ازیں کے مقصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس کا پراپیگنڈہ معمول رہا ہے بہرحال اس سے قطع نظر احسن بات یہ ہے کہ طالبان کی آمد سے کم از کم پاکستان کو اس امر کے حوالے سے مشکلات کا سامنا نہ ہوگاکہ ماضی کی طرح افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو۔ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیسے کیا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح افغانستان کی سرزمین بھارت اور پاکستان دشمن ایجنسیوں کی آماجگاہ نہ بن جائے اور جو لوگ بوریا بستر لپیٹ کر جارہے ہیں جا چکے ہیں ان کی کسی طور واپسی نہ ہو۔ یہ خود طالبان کے بھی مفاد کا تقاضا ہے کہ ان کی سرزمین صرف پاکستان ہی نہیں کسی کے خلاف بھی استعمال نہ ہو تاکہ ان کو پہلے کی طرح اس کی بھاری قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔
عمل کے برعکس دعویٰ
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے انگلش میڈیم میں ذہنی غلامی تھی۔ ہمارے ملک کے نیچے آنے کی بڑی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ گورنمنٹ سکولز میں پہلے بڑا اچھا سسٹم تھا لیکن آہستہ آہستہ نیچے کی طرف چلا گیا۔انہوں نے کہا بدقسمتی سے ماضی میں کسی نے تعلیم کی بہتری پر توجہ نہیں دی، طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کردیا، یکساں نصاب مستقبل میں ملک کیلئے فائدہ مند ہوگاوزیراعظم عمران خان نے انگلش میڈیم کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اصولی طور پر تو وہ درست ہیں لیکن اس کے لئے جس ماحول اور لوازمات کی ضرورت ہے اسے پورا کرکے قومی زبان میں تعلیم کو فروغ دینا اصل کام ہو گا جسے جاری حالات میں ناممکن اور مشکل قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا وطن عزیز میں نظام تعلیم کو میکالے کا نظام تعلیم اور انگریزی میڈیم کو مطعون کرنے کا تو رواج ہے لیکن اس نظام کے بالمقابل نظام تیار کرنے اور انگریزی کی جگہ اردو کو بتدریج رائج کرنے کی زحمت کبھی نہیں کی گئی کہنے کو اردو ہماری قوم زبان ہے مگر تعلیم سے لیکر نظام حکومت تک چلانے یہاں تک کہ اسمبلیوں میں بھی انگریزی بولنے کو کامیابی سمجھا جاتا ہے مقابلے کے امتحان اور حصول ملازمت کے لئے اچھی انگریزی کو اہلیت کا اعلیٰ معیار گردان کر طلبہ سے اردوپڑھنے کی فرمائش کی جائے حکومتی امور اور سرکاری زبان انگریزی رکھ کر اردو کی ترویج کا دعویٰ اور ترغیب دو عملی کی بدترین شکل ہے۔حکومت نے جو نیا قومی نصاب تیار کیا ہے اس کی کتابیں تک دستیاب نہیں اور نہ ہی نجی سکول اسے تسلیم کرنے پر تیار ہیں اگر طوعاً وکرھاً ایسا کرنا بھی پڑے تو قومی نصاب ثانوی اور علاوہ ازیں نصاب کی ترجیحی طور پر تعلیم دی جائے گی سوائے مطالعہ پاکستان ‘ اسلامیات اور اردو کے شاید ہی دیگر مضامین حکومتی پالیسی کے مطابق پڑھائے جائیں وزیر اعظم اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو قومی نصاب کا سنجیدگی سے نفاذایک اچھا آغاز ہو گا وزیر اعظم اگر اپنا دستخط اردو میں کرکے قومی زبان میں سرکاری امور نمٹانے کا عمل شروع کروائیں تو یہ احسن ہوگا۔
ڈینگی پھیلنے کے بعد بچائو کی سعی
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میںڈینگی پھیلنے لگی ہے اب تک ڈینگی وائرس کے متاثرین کی تعداد115 ہوگئی ہے صوبے کے مختلف علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی پھیلنے کے حوالے سے آنے والی اطلاعات تشویش ناک ہیں جس سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ محکمہ صحت اور متعلقہ حکام صورتحال سے یا تو لاعلم تھے یا پھر وہ اس سے نمٹنے کے لئے تیار نہ تھے کافی تاخیر کے بعد جب ڈینگی کے پھیلائو میں اضافہ ہوا تو اس حوالے سے جائزہ اجلاس کی ضرورت پڑی۔چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ڈاکٹر کاظم نیاز نے ڈینگی وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈینگی وائرس کی روک تھام کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانا ہونگے، ، پشاور، بٹگرام، مردان، نوشہرہ، مانسہرہ، ہری پور، کوہاٹ، سوات، کرم، بنوں اور خیبر پر خاص توجہ مرکوز ہے، انہوں نے کہا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں گلی کوچوں، محلوں اور گھروں وغیرہ میں اینٹی ڈینگی اسپرے کیا جارہا ہے، جن علاقوں میں ٹینکیوں کے ذریعے پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے وہاں ڈینگی وائرس کے پھیلا کا خدشہ ہوتا ہے انسداد ڈینگی کے لئے ضروری امر اس کے لاروے کو تلف کرنا اور پیشگی اقدامات ہیں لیکن ڈینگی کے ممکنہ موسم تقریباً آدھا گزرنے کے باوجود اس ضمن میں کوئی اقدامات سامنے نہیں آئے اور اب جبکہ میڈیا میں ڈینگی پھیلنے اور اموات کی خبریں آنے لگیں تو عجلت میں اجلاس طلب اور محولہ اقدامات کا عندیہ سمجھ سے بالاتر ہے ‘ ہمارے سرکاری اداروں کی اس طرح کی کارکردگی ہی ناکامی کی اصل اور بنیادی وجہ ہے اگر وقت سے پہلے اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرکے عملی اقدامات کئے جاتے اور اس کے لئے وسائل کا بندوبست ہوتا تو ڈینگی پھیلنے کی نوبت نہ آتی بہرحال اب جبکہ خفتہ عمال خواب غفلت سے جاگ ہی گئے یں تو جن اقدامات کا وہ عندیہ دے رہے ہیں ان کے اختیار کرنے میں مزید تاخیر کی نوبت نہ آئے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی