Mashriqyat

مشرقیات

ایک وقت تھا جب طالبان دیوان کے مترادف تھے مگر اب لگتا ہے کہ طالبان بھی اعتدال پسند ہوگئے ہیں طالبان نے نہ صرف امریکہ سے سمجھوتہ کر لیا ہے بلکہ ان کے باقی معاملات میں بھی سمجھوتہ واضح ہے اب طالبان سخت گیر کہلانے سے ڈرتے ہیں یا پھر مصلحت کے تقاضوں کو سمجھنے لگے ہیں طالبان اگر دیوان نہ رہے اور طالبان سے اعتدال پسند و مصلحت پسند بن گئے تو حکومت تو کرلیں گے مگر طالبان نہیں رہیں گے اس وقت جو طالبان زمام اقتدار کی باگ ڈور تھامے ہوئے ہیں بہت جلد اعتدال پسندی کا شکار ہوسکتے ہیں اور ان کے مدمقابل نئے طالبان کا ظہور ہوسکتا ہے ایسا ہونا اب اجتماعی ضرورت کے طور پر بھی محسوس ہونے لگا ہے اس ضرورت کی مزید تشریح و وضاحت ممکن نہیں لیکن سوچنے والوں کے لئے مقام غور و فکر ہے کہ ایسا کیوں لگتا ہے چلیں طالبان اور افغانستان کو ادھر ہی چھوڑ کر پاکستان چلے آتے ہیں یہاں ایک وقت میں جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت تھی جس کے مصاحبیں کو مصلحت کی بجائے نظریہ عزیز تھا اور جب مصلحت کوشی اقتدار پرغالب آگئی تو جماعت اسلامی بھی اسلامی رہی یا یا نہ رہی جماعت ہوگئی اب اگر دیکھیں تو نہ اسلامی رہی اور نہ جماعت حالانکہ اب بھی الخدمت کی خدمات سے کسی کو بھی انکار نہیں مگر صرف خدمت کافی نہیں نظریہ کی اہمیت اپنی جگہ خدمت سے خدا ضرور ملتا ہے مگر سیاست نہیں چلتی سیاست کے لئے نظریہ اور کردار کی اہمیت نظم او رمصلحت سے گریز کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح اگر جے یو آئی کا جائزہ لیا جائے تو مولانا مفتی محمود کے وزیر اعلیٰ ہونے اور اکرم خان درانی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر آنے تک جے یو آئی کتنی مصلحت کوش ہوچکی اس کے قائد جب ایسے سیاسی کردار بن گئے کہ اس کے بغیر حکومتیں نہ چلنے لگیں ایسا کچھ وقت تو چلا مگر جب کارتوس چل جائے تو پھر کھوکھا کسی کام کا نہیں رہتا۔ اسلامی و دینی جماعتوں کو چھوڑیئے اے این پی کو دیکھ لیں جب تک باچا خان اور ولی خان جیسے کٹر نظریاتی بابے رہے تو اے این پی کی وقعت رہی ان کی رخصتی کے بعد ایوان اقتدار کا یاترا شروع ہوا تو آج نتیجہ آپ کے سامنے ہے ڈھول باجے کی نوبت آگئی ہے ڈگڈگی پر ناچنے کی تیاری کی شنید ہے اس کا پتہ اگلے انتخابی نتائج سے ہی چلے گا کہ بچہ جمورا کی آنیاں جانیاں رنگ لاتی ہیں یا وفا کرکے بھی تنہا رہ جانے کی شکوہ شکایات ہوتی ہیں۔مدعایہ ہے کہ جو بھی کام اصل ہو اور اصل کی طرف لوٹ جانے والی ہو اس کی اصلیت برقرار رہتی ہے جہاں اصلیت بدل جائے تو پھر صورت گری ہونا شروع ہو جاتی ہے پھر صورت گر کی مرضی کہ وہ کس کو کب کس وقت اور کس مقصد کے لئے کس جانب موڑ دے ۔دیکھتے جایئے آگے آگے کیا ہوتا ہے ویسے آگے آگے وہی کچھ ہونے کا امکان اب بہت ہی کم ہے جو ہما شما سب سمجھتے ہیں اندازے اور توقعات ہمیشہ درست اور مرضی کے مطابق نہیں ہوا کرتے اور بس!!!۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد