Shazray

حکومتی کارکردگی کا عوامی آئینہ میں جائزہ

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے گزشتہ روز کہا کہ تبدیلی کا راستہ انتہائی کٹھن ہے اور کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ تین برس پہلے پاکستان تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک کی معاشی حالت نا گفتہ تو تھی ہی ایسے میں کورونا کی وباء سر منڈھاتے ہی اولے پڑے کے مصداق ثابت ہواساتھ ہی ساتھ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند تر سطح پر پہنچ گئی۔ ایک طرف مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر اور دوسری جانب ملازمتوں کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری بڑے مسائل کی صورت میں سامنے آئے۔ عام آدمی جس ریلیف کی توقع لگائے بیٹھا تھا اور عوام نے تبدیلی کی حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔یقینا اس کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اشیائے صرف خصوصی طور پر کھانے پینے کی اشیا کے نرخوں کو تیزی سے بڑھنے سے نہ روکا جا سکا یوں ان تین برسوں میں روز افزوں مہنگائی عام آدمی کی قوتِ خرید کا مسلسل امتحان لیتی رہی۔ آٹے چینی کوکنگ آئل و گھی کے نرخ اس عرصے میں دگنا ہو گئے جبکہ لوگوں کی آمدنی میں اس نسبت سے کوئی اضافہ مشاہدے میں نہیں آیا۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی فی یونٹ قیمتوں میں بار بار اضافے کے بھی عام آدمی کی جیب پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور یوں اس کی قوتِ خرید کم ہو گئی جبکہ یہ صورتحال غربت میں اضافے کا باعث بھی بنی۔ حکومتی سطح پر معاشی ترقی کے دعووں کے اثرات عام آدمی تک نہ پہنچ سکے اور وہ آج بھی اسی طرح کسی ریلیف کا منتظر ہے جیسے تین سال پہلے تھا۔حکومت جہاں تین سال کی کارکردگی اور اپنی کامیابیوں کی دعویدار ہے وہاں اگرناکامی اور خاص طور پر عام آدمی کے مسائل کے حل ومشکلات ‘ دور کرنے میں ناکامی کو بھی کسوٹی پر رکھے اور اس کے بعد کامیابی و ناکامی کا فیصلہ کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا جہاں حکومتی کارکردگی اچھی رہی وہ تو قابل اطمینان امر ہے لیکن جس عام اور عوامی شعبے میں حکومت کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا وہاں اصلاحات اور خامیوں کو دور کرنے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اس شعبے میں کامیابی کو ہی اصل کامیابی تصور کیا جائے گا۔عوام مطمئن نہ ہوں مہنگائی اشیائے صرف کی قیمتوں اور یوٹیلٹی بلز ہی جہاں عوام کا سنگین اور مستقبل مسئلہ ثابت ہو رہے ہوں تو حکومتی کامیابیوں اور تبدیلی کا پلڑا جھکا ہی رہے گا جس پر توجہ اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
لیبارٹریز کے نظام کی بہتری پر توجہ
خیبر پختونخوا میں پتھالوجی لیبارٹریز کے لئے نئے معیارات کا تعین اور ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے مختلف ہسپتالوں کی لیبارٹریز کا بھی معائنہ احسن قدم ہے امر واقع یہ ہے کہ نجی اور سرکاری لیبارٹریز میں مشینری اور ٹیسٹ کا معیار عالمی سطح پر تشخیص کے لئے رائج سہولیات کے مطابق نہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شکایات ہیں سرکاری اور نجی لیبارٹریز کا معیار ڈاکٹر ز کے لئے قابل تسلیم نہیں پشاور کے بعض نجی ہسپتالوں کا معائنہ کرتے ہوئے انہیں گائیڈ لائنز دے دی گئی ہیں جبکہ دوسرے مرحلے میں بڑے سرکاری ہسپتالوں میں بھی پتھالوجی لیب کے بارے میں سروے کیا جائے گا۔صوبائی دارالحکومت میں انگلیوں پر گنی جاے والی چند ایک لیبارٹریاں ہی لیبارٹری کہلانے کے لائق ہیںدوسری جانب غیر سند یافتہ افراد کی طرف سے جس طرح جگہ جگہ لیبارٹریاں قائم کرکے ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے ان کو چلایا جا رہا ہے ان کا عمل کسی بڑے مافیا سے کم نہیںسرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر اگر گٹھ جوڑ نہ کریں اور غیر مستند لیبارٹریوں کو مریض بجھوانے کا سلسلہ بند ہو تو یہ لیبارٹریاں ایک دن بھی چل نہیں سکتیںان کا معیار آلات تشخیص اور عملے کا تذکرہ ہی عبث ہے اسی طرح سرکاری اور اکثر نجی ہسپتالوں کی لیبارٹریاں بھی مستند نہیں جس کے باعث ڈاکٹر حضرات بڑی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مریضوں کو مشورہ دینے پر مجبور ہیں یہ بھی اپنی جگہ ایک بڑا مسئلہ ہے ابتدائی طور پر تمام غیر مستند اور جدید سازو سامان نہ رکھنے والے لیبارٹریوں کو بند کیا جائے اور ان کو موقع دیاجائے کہ وہ اپنے عملے اور آلات تشخیص کو مقررہ معیار پر لائیں سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریوں کا بھی معیار بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اس حوالے سے عملی اور سخت اقدامات مریضوں کے درست علاج و تشخیص اور صحت کے لئے ضروری ہیں جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔
اس طرح تو ہدف کبھی حاصل نہ ہوگا
پشاورمیں کورونا وائرس سے بچائو کیلئے یومیہ40 ہزار ویکسی نیشن کا ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہونے کی بڑی وجوہات ہیں ہمارے نمائندے کے مطابق شہری اور مضافاتی علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیموں پر مشتمل عملہ گھر گھر جانے کی بجائے ایک ہی مقام پر بیٹھ کر لوگوں کی ویکسی نیشن کے لئے آمد کا انتظار کرتے ہیں دوسری جانب ان علاقوں میں بعض افراد اپنی خواتین کو سنٹرز پر لے جانے کے لئے تیار نہیں زیادہ تر لوگ ویکسی نیشن نہیں کروا رہے ہیں ۔اس طرح کی صورتحال میں ہدف کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسے عوامی مقامات جیسے بی آرٹی سٹیشنز اور عوام کے لئے پرسہولت مقامات پر انتظامات کے علاوہ عملے کو بھی فرائض کو خوش اسلوبی سے پورا کرنے کا پابند بنا کر ہی مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہو گا۔
جائز شکایت
ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میںمخصوص سیاسی جماعت کے کارکنوں کی مداخلت ہسپتالوں میں کام بند کرنے کی دھمکی سنجیدہ معاملہ ہے ۔جس کا حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہئے ڈاکٹروں کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت خواہ وہ حکمران جماعت ہی کے کارکن کیوں نہ ہوں ان کو حق نہیں کہ وہ سرکاری دفاتر کا دورہ کریں سرکاری دفاتر کا دورہ کرنے اور شکایات کا ازالہ کرنے کا طریقہ کار مقرر ہے اور مجاز افراد ہی ایسا کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹروں کی شکایات کا جتنا جلد ہو سکے ازالہ کیا جائے اور ان کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری عمارات اور سڑکوں کی مرمت کا معاملہ