سرکاری ہسپتال ‘ جامعات فیسیں اور تبدیلی

سرکاری پالیسیوںکا بنیادی مقصد بہتر سے بہتر نظام متعارف کرانا اور عوام کی مشکلات اور مسائل کا ازالہ کرنا ہوتا ہے لیکن اگران پالیسیوں سے عوام ہی نالاں اور ان کی مشکلات میں اضافہ اور خاص طور معاشی طورپر بوجھ پڑ جائے تو ان پر تنقید تو ہو گی ہمارے دیرینہ قاری جو ہسپتالوں میں انتظامی امور کے عہدوں پر فائز رہنے والے ڈاکٹر صاحب ہیں اب ریٹار ہو چکے ہیں اس کالم میں اکثر ان کی طرف سے توجہ دلانے والے مسائل شامل ہوتے ہیںڈاکٹر صاحب نے سرکاری ہسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس اور تشخیص کی ہوشربا فیسوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کا کہنا ہے کہ نجی کلینکس اور ہسپتالوں میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی فیسوں میں اب فرق نہیں رہا ۔ان کا کہنا ہے کہ اب سرکاری ہسپتال عوامی شفاخانے کم اور ڈبگری گارڈن کے نجی کلینک زیادہ بن گئے ہیں ڈبگری گارڈن میں ہر ڈاکٹر کی فیس پندرہ سو روپے نہیں ہوتی اور نہ ہی الٹراسائونڈ پندرہ سو روپے ہوتا ہے جس کی سرکاری ہسپتالوں میں وصولی ہو رہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات سے تنگ آکر سرکاری ہسپتالوں سے سینئر ڈاکٹر ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں آئے روز ہسپتالوں سے ڈاکٹروں کے استعفوں کی خبریں اخبارات میں آتی ہیں ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹر کم ہی رہ گئے ہیں جو ڈاکٹر صاحبان ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں ان کا تجربہ اور لیاقت اتنی نہیں کہ ان کی فیس پندرہ سو روپے مقرر کی جائے پندرہ سو روپے فیس ڈبگری گارڈن میں پرائیویٹ کلینک پرسارے نہیں بلکہ بعض سینئر ترین اور ماہرین ترین ڈاکٹرز لیتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں پریکٹس کرنے والوں کی فیس پندرہ سو روپے مقرر کرنا عوام اور مریضوں سے سخت ناانصافی ہے اتنی بھاری فیس دے کر مریض سرکاری ہسپتالوں میں کیوں علاج کروائیں اور الٹراسائونڈ کی پندرہ سو روپے فیس کیوں دیں ۔ سرکاری ہسپتالوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کے طرز پر چلانے سے عوام کو کوئی سہولت نہیں مل سکتی سرکاری ہسپتالوں میں نجی پریکٹس کا آغاز ہی عوام کو مہنگی فیسوں سے بچانا تھااور مافیا کا مارکیٹ میں مقابلہ کرنا تھا۔بجائے اس کے کہ نجی ہسپتالوں اور کلینکس کے ریٹ یقینی عمل سے کم کرنے کی سعی کی جاتی الٹا سرکاری ہسپتالوں کو بھی ڈبگری گارڈن بنا دیا گیا ہے جس کا حکومت کو نوٹس لینے اور فیسوں و تشخیصی امور و خدمات کے لئے بھاری فیسیں لینے کی ممانعت کرے مارکیٹ سے کم فیسوں پر عوام کو علاج کی سہولت دی جائے ۔صحت کے شعبے کے بعد اتفاق سے تعلیم کے شعبے سے بھی اسی طرح کی شکایت آئی ہے۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی گلالئی انور نے سوال اٹھایا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں اور نجی جامعات میں فی سمسٹر فیسوں کے تناسب میں اب کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور جامعہ پشاور کے فی سمسٹر 35ہزار سے پینتالیس پچپن ہزار بتائی ہے۔بھاری فیس دے کر سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھائی پر طلبہ کا مجبور ہونا واقعی لمحہ فکریہ ہے حکومت اگر اعلیٰ تعلیم بھی مفت نہ کرے تو پھر حکومت طلبہ کے لئے اور کیا کر سکتی ہے ۔ بہت سارے سوالات اس طالبہ نے اٹھائے ہیں ا ن کا برقی پیغام لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ صرف سمسٹر فیسیں ہی نہیں دینی ہوتی ہے ہاسٹل کے اخراجات کھانے پینے کے اخراجات آمدورفت کے اخراجات ان سب کو ملا کر حساب کیا جائے تو کوئی عام ملازمت پیشہ شخص بمشکل ایک بچے ہی کو پڑھا سکتاہے باقی کا کیا ہو گا جن کی آمدنی کم ہو اورجن کی آمدنی نہ ہو یا واجبی ہو کیا ان کے بچوں کو تعلیم کا حق نہیں بہت سے بچے قابل ذہین
تعمیری سوچ اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ اور ایمانداری سے کام کے خواہشمند ہوں گے مگر تعلیم حاصل نہ کر سکنے اور معاشی مسائل کے سبب وہ ملک کی ترقی میں حصہ لینے اور اپنے خاندان کا سہارا بننے سے محروم رہتے ہیں مجھے تو ان کا سوچ کر ہی بہت افسوس ہوتا ہے اور جو ا تنے بھاری فیسیں دے کر ماں باپ کی امید بنتے ہیں بد قسمتی سے ان کو روزگار کے وہ مواقع میسر نہیں جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ جامعات اتنی بھاری فیس وصول کرنے کے باوجود خسارے کا شکار ہیں آوے کا آوا بگڑا ہے تو تعلیم کے معیار تحقیق اور ترقی کا سوچا کیسے جائے۔ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ آخر عوام کب صحیح نمائندوں کا چنائو کرے گی اور روایتی سیاسی خاندانوں سے ہمیں نجات ملے گی اس سوال کا آدھا جواب یہ ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی صورت میں کیا ان موروثی خاندانوں کے برعکس فیصلہ نہیں کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ زرداری ‘ شریف اور مولانا فضل الرحمان ‘ شیرپائو اور اس طرح کے دیگر سیاستدانوں کو مسترد کرکے پی ٹی آئی کو کامیاب بنا کرعوام نے تو اپنی رائے دی ہے اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کو تبدیلی کا حقیقی احساس دلا کر ان کے فیصلے اور خود پراعتماد کو درست ثابت کرے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت میں بھی موروثی عناصر وجود ہیں لیکن ا ن کی حیثیت فیصلہ ساز کی نہیں عوام اب بجا طور پر تبدیلی اور انصاف کی خواہاں ہے اب یہ موجودہ حکومت اور وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ جتنا ہو سکے تبدیلی اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور عوام کو مایوس ہونے نہ دے ایساکرکے ہی موروثی سیاسی خاندانوں کو باہر دھکیلا جا سکتا ہے اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو بھولے عوام پھر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کو بیماری دل کا علاج سمجھیں گے جس سے چھٹکارا وقت کا تقاضا ہے۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی