ایک نئی مزاحمت کا خواب

افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کا خواب بہت سی آنکھوں میں مچل رہا ہے۔یہ آنکھیں افغانستان کے اندر بھی ہیں مگر اس سے زیادہ باہر والوں کو اس خواب کی تعبیر کی جلدی ہے ۔بنیا مزاج قوموں کا خیال ہے کہ دنیا کا ہر کام پیسہ پھینک کر کیا جا سکتا ہے۔دنیا میں کامیابی اور فتح کی ہر راہ روپے پیسے سے ہو کر گزرتی ہے ۔بنیا مزاج کی اس سوچ نے امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور امریکہ افغانستان میں اپنے طویل المیعاد مقاصد کی تکمیل کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا تا چلا گیا ۔ایک فوج بھی کھڑی ہوئی ۔آنکھوں کو خیرہ کرنے والے کئی بڑے ترقیاتی منصوبے بھی بنے مگر جب وقت کا ریلا چلا تو فوج کاغذ کے سپاہیوں کا لشکر ثابت ہوئی ۔وجہ یہ کہ پیسہ تو خرچ کرنے والوں نے بے تحاشا خرچ کیامگر لڑنے کا جذبہ اور مزاحمت کا مادہ تو کسی بازار سے دستیاب ہونا تھا نہ ہوا اور یوں وقت پڑنے پر سارا سسٹم ریت کا گھروندہ ثابت ہوا۔جنوبی ایشیا کی بنیا ذہنیت پھر ڈالر فلاسفی کے تحت امریکہ اور یورپ کو اس دلدل میں کھینچ لاناچاہتی ہے جہاں سے وہ تار تار دامن سے جانیں بچا کر نکلے ہیں۔اب اس ذہنیت کی امید وادیٔ پنج شیر سے وابستہ ہے ۔بھارت کے ٹی وی چینلز نے وہ چیخ وپکار مچائی ہے کہ خدا کی پناہ ۔جنرل بخشی زخمی شیر کی طرح اپنے ملک اور حکومت کی پالیسیوں پر دھاڑ رہے ہیں ۔وہ بھارت کا مذاق اُڑا کر دل کے پھپھولے جلا رہے ہیں۔ایک اور میجر اور دفاعی تجزیہ نگار جو پاکستان کے اندرونی معاملات پر اکثر لاف زنی کرتی نظر آتے ہیں افغانستان میں پٹ جانے والی بنیا پالیسی اور ڈالر فلاسفی کا احیاء کرتے ہوئے کہتے ہیں ”آپ پنجشیر والوں سے پوچھیں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے کتنی رقم چاہئے وہ جو بولیں اس کی دگنی دیں اور ایک مزاحمت کا آغاز کریں۔طالبان کے ذرائع آمدن کا کسی کو اندازہ نہیں مگر افغانستان پر امریکہ اور بھارت نے جو سرمایہ کاری کی وہ ان کے بہی کھاتوں میں درج ہے ۔ یہ سرمایہ کھربوں ڈالر سے کم نہیں ۔بلاشبہ اس کا ایک حصہ واپس متعلقہ ملکوں کے افسروں اور نگرانوں کے اکاونٹس میں واپس گیا ہوگا ۔اس کے بعد افغانستان کا طبقہ اشرافیہ اور پھر نچلے درجے کے مڈل مین ،ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ اس بہتی گنگا سے مستفید ہوئے ہوں گے۔پیسے کا سیلاب برپا کرکے بھی بیس سال بعد امریکہ اور بھارت تہی دست وتہی داماں ہیں ۔اب انہیں ایک نئی مزاحمت کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔پنجشیر کی وادی سوویت فوجوں سے طالبان تک سب کے لئے ایک ناقابل تسخیر علاقہ رہی ہے ۔اب زمانہ بھی بدل گیا اور حالات بھی ۔پنجشیر وادی نے امن کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔یوٹیوب پر پنج شیر کی وڈیوزسے اندازہ ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد پنج شیر وادی میں امن کے باعث سڑکیں ،ڈیم اور دیدہ زیب عمارتیں بنیں۔خوبصورت نیلگوں کے دریا کے ساتھ ساتھ گزرنے والی شاہراہ کے کناروں پر احمد شاہ مسعود ،مارشل فہیم اور دوسرے گوریلا لیڈروں کی تصاویر آویزاں ہیں جو سنگلاخ اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس وادی میں مخصوص اثر رسوخ کو ثابت کر تی ہیں جو قطعی غیر فطری نہیں۔پنجشیر تاجک آبادی کا گڑھ ہے اور تاجک افغانستان کی دوسری بڑی نسلی اکائی ہیںاور اس اکائی میں جدید مزاحمت کی علامت احمد شاہ مسعود اور ان کے ساتھی ہیں۔ آج کے طالبان کی ترجیح جنگ نہیں امن معلوم ہو رہی ہے اسی لئے وہ پنج شیر وادی میں اپنی عمل داری قائم کرنے کے لئے حد درجہ صبر سے کام لے رہے ہیں۔وقت نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے صرف انہی کو نہیں بلکہ پنج شیر کے باسیوں سے امریکہ اور مغرب تک ہر کسی کو نئے سبق پڑھائے ہیں ۔احمد شاہ مسعود نے جب طالبان کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تو فرانس کے ساتھ پہلے سے ان کے گہرے روابط تھے ۔بھارت کے ساتھ انہوں نے تاجکستان میں معاہدہ کیا اور تاجکستان نے بھارت کو شمالی اتحاد کی مدد کے لئے سہولیات مہیا کیں ۔اس وقت روس ،ایران طالبان کے ہاتھوں زخم کھائے ہوئے تھے۔روس کا مطلب وسط ایشیائی ممالک تھے ۔ترکی طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔اس لئے بھارت کا شمالی اتحاد کی مدد کا فیصلہ طالبان کی سخت گیری او رپاکستان کی چھاپ کی وجہ سے دنیا کے لئے قابل قبول پایا۔اب زمانہ خاصا بدل گیا اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے رخصت کرنے کی کوششوں کو چار بڑے علاقائی ممالک کی حمایت حاصل تھی ۔ان میں روس چین ایران اور پاکستان شامل تھے ۔روس نے دس برس قبل طالبان سے راہ ورسم بڑھا لئے تھے ۔ایران نے بھی طالبان کو ایک حقیقت کے طور قبول کرلیا تھا۔ایران نے ایک سرکاری ذریعے سے افغانستان کے ہزارہ راہنمائوں پریہ بات واضح کر دی تھی کہ کسی بھی خانہ جنگی میں حصہ دار بننے کی صورت میں ہونے والے نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ اسماعیل خان جیسے سخت گیر ہزارہ کمانڈروں نے ایران کے بدلے ہوئے رویے سے مایوس ہو کر مزاحمت ترک کرکے خود کو طالبان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔روس کے طالبان کو قبول کرنے کا مطلب وسط ایشیائی ریاستوں کا بدل جانا ہے۔یہی عناصر شمالی اتحاد کی طاقت اور مزاحمانہ جذبے کا راز ہوا کرتے تھے۔اس بدلی ہوئی فضا میں بھارت فقط پیسہ پھینک کر پنجشیر میں کوئی مزاحمت کھڑی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا ہاں صر ف طالبان ہی طالبان کے خلاف مزاحمت کھڑی کر سکتے ہیں ۔دوسروں کو ساتھ لے کر نہ چلنے اور دوسروں کے وجود کا انکار کرکے مگر اس بار طالبان واقعی بدل گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی طالبان کے مخالف بھی بدل گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں