نئی صورتحال ‘خطرات و خدشات

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ طالبان قیادت ہمیں بتا چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سلسلے میں موثر اقدامات کریں گے کہ ٹی ٹی پی پاکستان یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہوسکے اور ہمیں ان پر اعتماد ہے۔انہوں نے کہا اگرٹی ٹی پی نے اس طرف کچھ کرنے کی کوشش کی تو ابھی بھی ہم ان کا پیچھا کر رہے ہیں انہیں ہم نے یہاں سے نکال باہر کیا ہے اس لئے انہوں نے افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں آزادانہ طور پر کارروائیاں نہیں کر سکتے۔ اگر کچھ ایسا ہوتا ہے تو ہم نے اپنے اقدامات یہاں کیے ہوئے ہیں اور ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔پاکستان پہلے ہی تمام اقدامات اٹھا چکا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور دونوں طرف کی موومنٹ کنٹرول میں ہے پاک فوج کے ترجمان کے پراعتماد ہونے کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ٹی ٹی پی ہی نہیں داعش کے حوالے سے بھی ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے ٹی ٹی پی اور داعش کی ممکنہ گٹھ جوڑ پاکستان کے لئے ہی نہیں طالبان کے لئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتی ہے اگرچہ طالبان قیادت نے ان کو پاکستان سے بات چیت سے معاملات طے کرنے یا پھر خاموشی سے پرامن طور پر رہنے کا آپشن ضرو ر دیا ہے یہ دونوں صورتیں موزوں ہیںلیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹی ٹی پی کی ساری قیادت اس پیشکش کو من و عن قبول کرے گی اور اس کی صفوں میں شامل شدت پسند عناصر اور خاص طور پر بعض دشمن ممالک کے ہاتھوں میں کھیلنے والے سر تسلیم خم کریں گے امکان اس امر کا ہے کہ ٹی ٹی پی کا ایک حصہ افغان طالبان کے مشورے کو اہمیت دے گا لیکن انتہا پسند عناصر کا داعش کی صورت میں موجودگی گروہ سے روابط اور ان سے مل کر کارروائی کی کوئی کوشش بھی غیر متوقع نہیں خاص طور پر جبکہ داعش نے طالبان اور امریکی فوج کی موجودگی میں کابل کے ہوائی مستقر کو جس طرح نشانہ بنایا اگر واقعی وہ اس استعداد کی حامل ہے تو پھر اس کے ابھرتے خطرے کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا امر واقع یہ ہے کہ کابل میں امارت اسلامی خراسان کی طرف سے خونریز حملوں کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سلامتی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے سے پاکستان کی سکیورٹی کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔مبصرین کے مطابق داعش کے ابھرنے سے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے خطرات بڑھیں گے۔کچھ برس پہلے طالبان کے کچھ سرکردہ رہنمائوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس شدت پسند تنظیم نے پاکستان میں حملے کیے تھے۔ اب اس کے ایک بار پھر ابھرنے سے خطرات بڑھ جائیں گے، جن سے پاکستان میں عدم استحکام کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس تنظیم کی وجہ سے ملک کے سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں داعش کے لئے کام کرنے والے چین، روس اور پاکستان کے مخالف ہیںاس کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے، جس میں چیچن، داغستان سے تعلق رکھنے والے اور چین کے مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند تھے، جو شام میں لڑنے کے لئے گئے تھے اور بعد میں انہیں افغانستان لایا گیا۔ان عناصر کی سرحد کے اس پار اور اس پار متحرک ہونے کے خطرات کو پوری طرح خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا اس طرح کے ممکنہ طورتحال سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے افراد ہیں، جو کسی بھی مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں لیکن وہ داعش کے نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں اور ان کے لئے کام کر سکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان کا کنٹرول کس حد تک موثر اور ٹی ٹی پی سے لیکر داعش تک سے وہ کیسے نمٹتے ہیں ان کے خلاف کیا کوئی محاذ کھڑا ہو گا یا پھر طالبان کو اپنے ہی داخلی طور پر چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا ان تمام امور سے قطع نظر محولہ خطرات سے صرف نظر ممکن نہیں بہتر پالیسی یہ ہو گی کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان پر چھوڑنے کی غلطی کرنے کی بجائے ہمیں خطے میں آئندہ بننے والے خطرات اور گٹھ جوڑ و سازش سے ملک کو عدم استحکام کی نئی سازشوں اور چالوں سے نمٹنے کی بہتر منصوبہ بندی و تیاری کرنی ہو گی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے ملک کو ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد دہشت گردی سے محفوظ بنایا ہے اور سرحدیں بھی محفوظ ہیں افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد سرحدی علاقے مزید محفوظ ہونا فطری امر ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ابھرتے مزید خطرات اور طالبان کی کمزوریوں و ممکنہ مسائل و مشکلات سے بھی صرف نظر ممکن نہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور بات چیت کا عمل ایک مثبت پیش رفت ہو گی علاوہ ازیں کی صورتحال کی بھی پوری تیاری ضروری ہے۔
پہلے سنجیدگی سے خود کوشش تو کریں
صوبائی ٹاسک فورس برائے انسداد کورونا نے صوبے کے بعض اضلاع میں کورونا کے مثبت کیسز کی بڑھتی ہوئی شرح اور سمارٹ لاک ڈائون سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اور پابندیوں پر عدم عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پہلے سے نافذ پابندیوں اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ کی مدد کیلئے پاک فوج سے تعاون کی درخواست کی ہے۔اگر قرار دیا جائے کہ کورونا کو حکومتی اداروں اورعوام دونوں کی جانب سے ابتداء کے بیس پچیس دن اوراول ماہ ہی سنجیدگی سے لیا گیا اس کے بعد اسے اس حوالے سے جو بے نیازی اور بے رخی برتی جا رہی ہے اس کا الزام صر ف عوام کو نہیں دیا جا سکتابلکہ سرکاری اداروں سے اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ لاک ڈائون کو مذاق بنا دیا گیاسڑک بند کرنے کے لئے دو چار بلاک ایک جگہ رکھ کر چند پولیس والے کھڑے کرکے باقی معمولات سے عدم احتراز کے باعث عوام نے بھی اس عمل کو مذاق سمجھنا شروع کر دیا ایک مرتبہ عوام میں کسی معاملے کے حوالے سے بے رخی بے اعتنائی اور غیر سنجیدگی و لاپرواہی اختیار کی جائے تو بعد میں لاکھ کوششوں کے باوجود حالات کو سدھارنا ممکن نہیں ہوتا ان حالات میں ہر حکومتی قدم اس وقت تک ھیچ ہوگا جب تک کوئی سنجیدہ اور سخت صورت اختیار نہیں کی جاتی فوج سے ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا پولیس اور سول انتظامیہ کی ناکامی کا عملی اظہار ہوگافوج یقیناً صوبائی حکومت کی دستگیری کی پابند ہو گی لیکن اگراس معاملے میں فوج کی بجائے پولیس اور سول انتظامیہ مذاق چھوڑ کر سنجیدگی سے کام کرے تو فوج بلانے کی نوبت نہیں آئے گی پہلے سختی کا مظاہرہ تو کیا جائے اس کے بعد اگر واقعی پولیس اور سول انتظامیہ ناکام ہو جاتی ہے تو پھر فوج کو دعوت دینے میں حرج نہیں۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟