انتظامی غفلت کاشاخسانہ

انتظامی غفلت کاشاخسانہ

14، اگست 2021 کو پاکستان کے عوام اپنا جشن آزادی بڑی شان اور شوکت کے ساتھ منا رہے تھے اور کیوں نہ منائیں کہ اس دن کی اصل حقیت ہی یہ ہے کہ 14اگست 1947 کو مسلمانان ہند نے مسلم مخالف قوتوں سے آزادی حاصل کی تھی اور ایک ایسا خطہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جہاں وہ اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے آخری نبی سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی آفاقی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے خواہش مند تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آنے والوں اور یہاں کے مقامی افراد کے لیے تاریخی اعتبار سے یہ دن بڑی اہم حیثیت اختیار کر گیا اور پاکستان کے تمام رہنے اور بسنے والے اس دن کو عید آزادی کے نام سے موسوم کر کے گزارتے ہیں، اس دن کی اہمیت کے پیش نظر حکومت وقت اور انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے کہ ہر لحاظ سے بہترین انتظامی اقدامات کیے جائیں، لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہماری حکومت بہت سے مسائل اور معاملات کو سطحی تناظر میں دیکھتی ہے اور اسی اعتبار سے سطحی انتظامات کیے جاتے ہیں یا جنہیں انتظامی نوعیت کی اہم ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں وہ اپنی ذمے داریوں سے صرف نظر کرتے ہوئے معاملات کو جوں کاتوں ہی چلنے دیتے ہیں اور وقت، حالات اور معاملات کی حساسیت کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ہماری حکومت اور ہمارے انتظامی افسران کو شاید ذرہ برابر بھی اس بات کا احساس نہیں کے ہماری قومی ترقی اور ہماری خوشیاں ان گنت مخالفین کو کسی طور بھی نہیں بھاتیں اورہماری خوشیوں کو گہنانے کے لیے کس کس جانب سے ہمیں چوکنا رہنا چاہیے اس بات کاانتظام کرنا اور ہماری خوشیوں کو مکمل طور پر محفوظ بنانا وقت کے حکمرانوں اور ان کے اعلیٰ انتظامی افسران کا فرض اولین ہے۔
مینار پاکستان پر ہونے والے واقعے کا اگر گہری فکر کے ساتھ جا ئزہ لیا جائے تو واقعہ خالص انتظامیہ کی غیر ذمے داری کا منہ بولتا ثبوت ہے اگر مینار پاکستان پر خدمات انجام دینے والے افراد مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے تو شاید اس نوعیت کا واقعہ وقو ع پذیر ہی نہ ہو تا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن افراد کی غیر ذمے داری سے اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کو فوری ملازمتوں سے فارغ کر کے گرفتار کیا جاتا تاکہ آئندہ نہ تو کوئی غیرذمے داری کا مرتکب ہو اور نہ ہی اس قسم کے واقعات دہرائے جا سکیں۔
14 اگست 2021 کے واقعے کے جہاں انتظامیہ اور ہمارے حکمران پوری طرح ذمے دار ہیں وہیں ہماری معاشرتی بے حسی کا بھی بے مثال مظاہرہ دکھائی دیتا ہے اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے کون لوگ ہیں جو ہمارے معاشرہ میں نقب لگا کر ہمارے نوجوانوں کو برباد کر رہے ہیں آخر ہمارے عوام کی اخلاقی حالت میں اتنا بگاڑ کیوں پیدا ہو گیا ہے؟ کہ انہوں نے خواتین کی عزت اور حرمت کو ہی نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے، ہمارا دین اور مذہب تو ہمیں خواتین کیا مردوں کے احترام کا بھی سبق دیتا ہے ہمارے معاشرے میں کون سی تعلیمات فروغ پا رہی ہیں کہ ہمارے لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت کیوں اس بے باکی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس سے ہماری اقدار اور اسلامی روایات پانی پانی ہیں محسوس ہوتی ہیں،ہماری معاشرتی مادر پدر آزادی نے ہم سے ہمارا اخلاق ہی نہیں چھینا ہماری اقدار بھی چھین لی ہیں آج ہم تعلیم کی اعلیٰ ترین اسناد حاصل کرنے کے بعد بھی اس معاشرتی تعلیم سے کوسوں دور ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے واقعات ہمارے اُن مفکرین اور دانشوروں کے لیے لمحہ فکر ہونا چاہیے جنہوں نے اپنے افکار اور نظریات کے فروغ سے ہمارے نوجوانوں سے ان کی حقیقی اقدار چھین کر ایک آزاد معاشرے کی داغ بیل ڈال دی تھی اور یہ انہی افکار اور نظریات کا ہی فروغ تو ہے کہ آج معاشرے میں ایسے مظاہر اور مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے جو میڈیا کی زینت بن گیا تو ہر طرف شور مچ گیا ہے کسی بھی تفریحی مقام پر چلے جائیں ایسے ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں کہ جنہیں سناتے ہو الفاظ بھی شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں اور جنہیں دیکھتے ہوئے ایک حیادار انسان کی نگاہیں جھک جاتی ہیں لیکن مغربی فکر اور فلسفہ کو فروغ دینے والے ان عوامل کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرتی بے راہ روی میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کیسی آزادیاں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے بچوں کا بچپن ہی ان سے چھن جاتا ہے وہ بہت جلد ہی ایسی ایسی باتوں کو جان لیتے ہیں جن کو ابھی وہ ڈھنگ سے سمجھنے کی بھی صلاحیت حاصل نہیں کر پاتے لیکن وقت، حالات اور ہمارا عصری طرز معاشرت جو ماڈرن ازم کی گود میں پل کر ہماری معاشرتی حدود، قیود اور ہماری اخلاقیات کے ساتھ برسر پیکار ہے اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہمارے بچے جدیدیت کہ نام پر وہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں جن کو دیکھنے پر بھی اور سننے پر بھی یوم آخرت دیکھنے اور سننے والے بھی اور سہولتیں فراہم کرنے والے بھی کس منہ سے رب کعبہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!