توجہ طلب مسائل و معاملات

کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کو کالم میں شامل کیا جائے اور اس کی تائید میں پیغامات نہ آئے ہوں۔ تائیدی پیغامات سے حوصلہ ضرور ملتا ہے لیکن اگر قارئین کسی مسئلے کی اشاعت کے بعد تبصرے وتائید کی بجائے مسائل کی نشاندہی کرکے پیغامات اور تحریریں بجھوائیں تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی کسی ایک قاری کے پیغام سے بھی مسئلہ اجاگر ضرور ہوتا ہے لیکن اگرزیادہ قارئین مختلف پہلو سے آگاہ کریں گے تو زیادہ بہتر ہو گااور مسئلہ جامع و اجتماعی طور پر اجاگر ہو گا۔ملازمت پیشہ اور کم آمدنی والے افراد کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور جامعات کی فیسوں کے حولے سے صورتحال بیان کی گئی تھی اس حوالے سے کئی افراد جس میں سرکاری ملازمین ‘ پنشنرز اور اوسط آمدنی کے حامل خواتین و حضرات شامل ہیں انہوں نے نہ صرف تائید کی ہے بلکہ اپنے اپنے حالات آمدنی اور اخراجات ‘ صحت و تعلیم کی مجبوریاں لکھی ہیں ہر ایک پیغام اپنی جگہ الگ کہانی ہے لب لباب یہ کہ عوام خواہ وہ سرکاری ملازمین ہی ہوں سخت مشکلات کا شکار ہیں خاص طور پر تعلیمی اخراجات کا تو ہر کسی نے رونا رویا ہے نجی اداروں کے بنیادی حقوق اور کم سے کم اجرت سے بھی محروم ملازمین کی بپتا نہ ہی سنائوں تو مناسب ہو گا کہ دل کے پھپھولے پھوڑنے سے کچھ بنے گا نہیں حکومت سے یہی گزارش ہو سکتی ہے کہ خدارا محکمہ محنت و افرادی قوت کے انسپکٹروں کو کچھ تو زحمت دیا کریں جو کم سے کم اجرت اور ای او بی آئی میں رجسٹریشن ہی چیک کر لیا کریں۔ جامعات کے مالی خسارے میں کمی لانے اور طلبہ کو رعایت کے وسائل پیدا کرنے کے لئے جامعات کی آمدنی کے لئے اس کی عمارتوں کو دوسری شفٹ میں نجی انسٹی ٹیوٹس کو کرائے پر دینے اور اعلیٰ تعلیم کے ایسے ادارے اور شعبے قائم کرکے جہاں معیاری تعلیم کے حصول کے لئے صاحب مال والدین کے بچے فیسیں دے کر تعلیم حاصل کریں ایسا نجی تعلیمی اداروں سے بہتر تعلیمی نظام اور نت نئے مضامین اور طبی و تجارتی تعلیم دے کر ہی کرنا ممکن ہوگا تاکہ اس حاصل رقم سے یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں کے اخراجات پوری ہو سکیں۔ایک نوجوان نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے بی ایس سرجیکل کی تعلیم حاصل کی ہے اس شعبے کے چار بیج کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے اس شعبے میں ملازمتوں کے حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا سرکاری اور نجی ہسپتالوں میںنوجوانوں کی ملازمت کے مواقع اور کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے تو بی ایس سرجیکل کے طالب علموں کو مواقع میسر آئیں اس طرح معمول ہے کہ بغیر منصوبہ بندی کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں او پھر طلبہ احتجاج کرتے رہ جاتے ہیں علاوہ ازیں بھی بروقت سروس سٹرکچر نہ بنانے کے باعث بھی حصول ملازمت کے بعد بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے احتجاج کے بعد کہیں جا کر حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے حالانکہ ان دونوں عوامل کا ا بتداء سے جائزہ اور طریقہ کار وضع ہونا چاہئے ۔ جیلخانہ جات کے ملازمین گریڈ سات سے11تک کاکے ملازمین نے ایک مشترکہ تفصیلی پیغام میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قبل ازیں ان کو کٹ بکس یعنی وردی اور دیگر سامان مثلاً ٹوپی بیج کندھا نمبر جرابیں بوٹ چپلی جرسی بکس یونیفارم سال بہ سال ملتی تھیں البتہ سامان ناقص ہونے کی
شکایت ضرور تھی مگر اب ا ن ملازمین کو یہ سب کچھ ملنا بند ہو گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ2017ء سے وردی ملی ہی نہیں اور اس دفعہ2021میں یونیفارم اور دیگر سامان تو مل گیا مگر بکس اور چپلی کسی کو نہیں دی گئی بکس 5سال بعد ملتا ہے مگر2017ئ سے سامان ہی نہیں آیا اور اس مرتبہ جب دیگر سامان آیا تو بکس اور چپلیاں اس میں شامل نہیں تھیں ملازمین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کٹ میں ٹھیکیدار اور آئی جی جیل خانہ جات کا کمیشن ہوتا ہے ٹھیکیدار3نمبر چیزیں بناتا ہے اور پاس آئی جی جیلخانہ جات کے سائن سے ہوتا ہے یہ تمام چیزیں انتہائی غیر معیاری ہوتی ہیں کیونکہ اس میں ہیرا پھیری ہوتی ہے اور ستم یہ ہے کہ گریڈ 14سے 21 تک کے افسران کو کٹ بکس کا الاوئنس ملتا ہے جبکہ پست درجے ملازمین کے لئے دوہرا قانون اور طریقہ کار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام صوبے کے سکیل سات سے 11تک تمام ملازمین کو آفیسرز کی طرح سال میں ایک بار جسطرح ان کو الاوئنس ملتا ہے ہمیں بھی ملا کرے اور یہ ٹینڈر اور تیار کٹ بکس والا معاملہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہو جائے اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک تو ہمیں اپنا حق صحیح ملے گا اور دوسری اہم بات افسران بالا کی کرپشن ختم ہوگی تجویز تو معقول ہے اس پر غور ہونا چاہئے علاوہ ازیں ملازمین کو مکمل سامان معیار کے مطابق فراہمی ہونی چاہئے۔بہتر ہو گاکہ ملازمین کی شکایات والزامات کی تحقیقات ہوں اور نیب اس کا نوٹس لے سکے تو اور بھی اچھا ہو گا۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام