کابل میں سب اچھا نہیں ہے

کابل میں دھماکے اور خود کش حملے کے ساتھ ڈرون حملہ بھی ہوا ہے داعش خراسان نے خود کش بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے داعش کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دو معاہدوں کے بعد امریکہ اور اتحادیوں اور طالبان نے معاہدے کے مطابق داعش کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ داعش افغانستان میںپہنچی کیسے اور منظم کیسے ہوئی اس میں مرکزی کردار تو خود امریکہ ہے پھر س کے ایشیائی پارٹنر بھارت نے داعش کو گود لیا ۔ امریکی کانگریس کی دہشت گردی کے حوالے سے قائم کمیٹی کی سال 2020ء کی رپورٹ بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھاتی مگر کیا ہوا۔ کوئی کارروائی داعش کے خلاف یا کوئی اقدام بھارت کے خلاف؟ جہاں سے داعش کو مالی امداد اور افرادی قوت پہنچی۔ جوبائیڈن کو اب اپنی قوم سے خطاب کے دوران سر جھکا کر رونے کی بجائے عالمی رائے عامہ کے اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ داعش کے جنگجوئوں کو عراق و شام سے افغانستان کس نے پہنچایا اور درمیانی ذریعہ کونسا ملک بنا۔ کابل میں جمعرات کو ہونے والے ایک خود کش اور دو بم دھماکوں بارے اس سے 48 گھنٹے قبل خبردار کیا جارہا تھا کہ داعش کارروائی کرسکتی ہے امریکہ اور برطانیہ اس ضمن میں وارننگ جاری کر چکے تھے ۔ یہاں پر ایک سوال ہے ۔ پیشگی اطلاع کے باوجود کیا کارروائی کی گئی؟ بیانات سے ہٹ کر زمینی حقائق کی روشنی میں ہر سوال اہم رہا کہ افغان نیشنل آرمی نے مزاحمت کیوں نہ کی۔ سابق صدر اشرف غنی نے اپنے آرمی چیف کو برطرف کرنے کی جن وجوہات کو سامنے رکھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ برطرف آرمی چیف نے افغان نیشنل آرمی کی علاقائی کمان کو باضابطہ طور پر ہدایات دی تھیں کہ ”افغان طالبان کی پیش قدمتی کی مزاحمت نہ کی جائے”۔ اس حساب سے پینٹاگون کی حیرانی منافقت بھری ہے خیر چھوڑیئے یہ ماضی ہے اس پر یقیناً باتیں ہو گی سوالات اٹھائے جائیں گے آج نہیں تو کل کھیل اور کردار واضح ہو جائیں گے ۔ فی الوقت یہ ہے کہ سچویشن روم میں خود کو محدود کئے امریکی صدر جوبائیڈن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ مطالبہ کرنے والوں میں سابق صدر ٹرپ نمایاں ہیں۔ دوحہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ نے کیا تھا معاہدہ کی ان شقوں پر ان کے دور میں عمل کیوں نہ ہوا جن پر عملدرآمد معاہدے کے مطابق اشد ضروری بلکہ یہ عمل معاہدہ کی کامیابی کی ضمانت تھا؟
کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایئر پورٹ اور گردو نواح میں بارہ ہزار سے زائد افراد امریکی فوجیوں کا ان سے توہین آمیز رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ خبروں کے ساتھ متعدد ویڈیوز دنیا کے کروڑوں افراد دیکھ چکے ۔ مہذب کہلانے والی اقوام کی تربیت یافتہ فورسز کے اہلکاروں کا خواتین سے رویہ دیکھ کر طالبان سے شکوہ اورمطالبہ دونوں فضول لگتے ہیں۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زائد لوگ غذائی قلت سے دو چارہیں۔ ادویات اور طبی عملے کی شدید کمی ہے طالبان نے خواتین طبی عملے سے ڈیوٹی پر واپس آنے کی اپیل کی ہے ایک فیصد سے بھی کم خواتین طبی عملے نے اس اپیل کو قبول کیا۔ امریکی کہتے ہیں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے اتحادیوں سے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اسے کھلی منافقت ہی کہا جائے گا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ امریکہ ڈبل گیم کر گیا پتلی گلی سے نکلنے سے قبل کئے انتظامات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہم اس پر بحث نہیں کرتے کہ طالبان افغانستان کو کیسا نظام دیں گے اور کیا آنے والے دن ان کے سابقہ ادوار سے مختلف ہوں گے ۔ کیا صرف گوریلا وار کے لئے تربیت یافتہ فورس(طالبان) کے اہلکارںسماجی رویوں اور ضرورتوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ یہ اہم اور بنیادی سوال ہے گزشہ چند دنوں کے دوران کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میںکچھ ایسے واقعات پیش آئے جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ عام طالبان اہلکار سماجی رویوں اور ضرورتوں کے ساتھ دوسرے مسائل کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ جس مسئلہ کو نرم گفتگو سے حل کیا جا سکتا ہے اس پر وہ تشدد اور فائرنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظام اور کمانڈ کی عدم موجودگی ہے جیسے ہی نظام اور انتظامیہ سامنے آئے صورتحال بہتر ہو گی۔ لیکن ضروری تھا کہ شہروں میں گشت پر مامور افراد کو ہدایت کی جاتی کہ وہ محاذ جنگ اور شہری ماحول کے فرق کو مد نظر رکھیں۔ہمارے یہاں طالبان کی کامیابی پرداد کے ڈونگرے برسانے والے اپنے تعصب میں گرفتار ہیں یہی وجہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ کیا اس طریقہ سے پاکستان میں اسلام نافذ کرنا درست ہو گا تو کچھ جبینوں پر شکنیں دکھائی دیتی ہیں حالانکہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ خود ہم بھی ایک تقسیم شدہ معاشرے میں رہتے ہیں جمہوریت کو منہ بھر کے گالیاں دینے کے باوجود ہمارے لوگوں کی ا کثریت غیر ریاستی ایکٹرز کی مخالف ہے خیر اس جملہ معترضہ کو الگ اٹھا رکھئے پچھلے چند دنوں سے افغان مہاجرین کے نئے ریلے کے حوالے سے ہمارے یہاں بحث جاری ہے ۔اس کی وجہ ہے اوروہ یہ کہ حکومت عوام کو بتا رہی تھی کہ اگر نئے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں سرحدی علاقوں میں کیمپوں تک محدود رکھا جائے گا لیکن اب لاہور سمیت بعض بڑے شہروں میں ہنگامی انتظامات کئے جارہے ہیں حکومت کھل کو بتائے کہ وہ کرنے کیا جارہی ہے ۔ افغانستان کے پڑوسی فقظ ہم ہی نہیں دوسرے پڑوسی اس کار خیر(مہاجرین کو پناہ دینے کے) میں حصہ کیوں نہیں ڈال رہے ہم پر پہلے ہی 30لاکھ مہاجرین کا بوجھ ہے ۔ فقیر راحموں کہتے ہیں کہ اگر بہت ضروری ہے مہاجرین کوپناہ دینا تو پھر مختلف شہروں میں موجود عسکری ون سے عسکری الیون تک کے ریاستی علاقے خالی کروا کے ان میں مہاجرین کو رکھا جائے کیونکہ ملک بھر میں سب سے بہترین سیکورٹی انتظامات ان کالونیوں میں ہیں۔ مشورہ اچھا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو گا کہ بوجھ رعایا کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد