امریکی انخلاء کی تکمیل

امریکی انخلاء کی تکمیل اورطالبان کی آزمائش کاآغاز

1919ء میں برطانیہ بعد ازاں سوویت یونین اور اب 2021ء میں امریکا نے ناکام جنگ کے بعد افغانستان سے واپسی کی راہ لے لی۔ ایک صدی سے جنگ و جدل اور عدم استحکام کا شکار افغانستان اب طالبان کے تسلط میں ہے جنہیں حکومت سازی ‘ حکومتی اداروں کا قیام و استحکام امن و امان باقاعدہ فوج کی تشکیل اور داعش سے لیکر دنیا سے تعلقات وسفارتکاری تک کے جیسے اہم اور پیچیدہ امور کا سامنا ہیتقریباً دو دہائی تک جاری رہنے والی امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے امریکانے نائن الیون حملوں کے بعدافغانستان پرچڑھائی کی تھی مگربیس سال تک دنیاکی جدیدترین ٹیکنالوجی اورانتہائی تربیت یافتہ افواج کے ذریعے بھی افغانستان کے پیدل جنگجوئوں کوشکست نہ دی جاسکی جدید ٹیکنالوجی و مہارت آلات حرب سے لیس امریکا طالبان کوزیر کرنے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکی عالمی فوج کوکیوں ناکامی کا سامنا ہوا اس پر کتابیں لکھی جائیں گی تو شاید کچھ اندازہ ہو بہرحال یہ ایک طویل عرصے تک تحقیق طلب موضوع بحث ہے جس سے قطع نظر آج طالبان کی ممکنہ حکومت کے ساتھ افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے تین بڑی عالمی طاقتوں کی شکست کے بعد اب طویل مدت تک آئندہ شاید ہی افغانستان پر بیرونی یلغار کی نوبت آئے البتہ داخلی محاذ آرائی و عدم استحکام و انتشار کا وقت ابھی ٹلا نہیں طالبان کو پنج شیر اور داعش کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہے گا۔طالبان کوافغانستان میںاب بہت بڑی ذمہ داریاںنبھانا ہے طالبان کے پاس جشن منانے کا اب زیادہ وقت نہیں بلکہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کوسنبھالنے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ کی ضرورت ہے طالبان قیادت کو حکومت سازی کے ساتھ ساتھ افغان دھڑوں کے مابین رابطہ کاری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے مذاکرات کے عمل کا فوری آغاز کرنا چاہئے۔ افغانستان کی آئندہ حکومت کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کی حکومت میں کسی نہ کسی حد تک شمولیت ضروری ہے۔ طالبان کو اس کام کو حتمی صورت دینے میں اب دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ تاخیر کی صورت میں خلفشار بڑھے گا اور اس کا فائدہ طالبان مخالف قوتوں کو ہی ہوگااگرچہ طالبان کا خیال ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد داعش اپنی سرگرمیاں ترک کردے گا مگرعملاً ایسا نظر نہیں آتا اور نہ ہی داعش نے اس طرح کا کوئی عندیہ دیا ہے ایسے میں یہ ممکن ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کو سلامتی کے اس خطرے سے نمٹنا پڑے اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ایک متفقہ اور مضبوط حکومت قائم ہوجو صرف کابل میں نہیں بلکہ تمام بڑے شہروں’ اضلاع اوردیہی علاقوں تک محیط ہوممکن ہے طالبان کوامور مملکت کے حوالے سے بہت زیادہ غور و فکر کا موقع نہ ملا ہوکیونکہ ماضی قریب کی بہت سی پیش رفت غیر معمولی انداز میںاور قطعی غیر متوقع طور پرہوئی ہے اس لئے اب طالبان
کو تیزی سے کام کرنا ہو گا تاکہ جہاں جہاں خلاء موجود ہے اسے جلد پر کرنے کی سعی کی جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مضبوط حکومت ہی افغانستان کو داخلی استحکام علاقائی اور عالمی سطح پر موثر صورت عطا کر سکتی ہے اس ضمن میں علاقائی ممالک کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا سردست مدد کی بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ افغان دھڑوں کے مابین بات چیت میں سہولت پیدا کی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ جلد از جلد کوئی حل نکل آئے۔ اب تک امریکی موجودگی اگر اس کام میں ایک رکاوٹ تھی تو اب وہ بھی دور ہو چکی ہے اس لیے اب کوئی وجہ نہیں کہ حکومت سازی کے عمل میں مزید تاخیر کی جائے۔ اس معاملے میں جتنی تاخیر ہو گی اس سے سوال پیدا ہوں گے اور خلفشار میں اضافہ ہو گا۔ نیز دیر تک مسئلہ لٹکا رہنے سے قابلِ قبول حل کا حصول بھی مشکل ہوتا جائے گا۔دنیا کو بھی اب طالبان کے آئندہ کے اقدامات کا انتظار ہے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں قراردار منظور کی گئی ہے جس میں طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں کہ ملک چھوڑنے والوں کو جانے کی مکمل آزادی ہوگی۔تاہم اس قرارداد میں انخلا کے لیے کابل میں محفوظ زون قائم کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا جس کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں گذشتہ روز کہہ چکے تھے۔قرارداد میں امید ظاہر کی گئی کہ طالبان اپنے تمام وعدوں پر پورا اتریں گے جن میں27اگست کا ان کا بیان بھی شامل ہے کہ افغانوں کو کسی بھی راستے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہوگی۔اس کے علاوہ طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں اور افغانستان میں تمام فریقین بشمول خواتین کے ایک منظم اور انکلسیو حکومت قائم کریں۔قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کو دھمکانے یا حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں اور نہ ہی دہشت گردوں کو پناہ دینے یا ٹریننگ یا مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے ان سارے معاملات میں طالبان کا اپنی ذمہ داری نبھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر طالبان بین الاقوامی برادری سے تعلقات استوار نہیں کر سکیں گے اور ان کو مخالفت اور مشکلات کا سامنا ہو گا۔ عالمی برادری طالبان سے مطالبات اور توقعات کی لمبی فہرست رکھتی ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے خاموش ہے جس کے نتیجے میں افغانستان انسانی المیہ سے دو چار ہوسکتا ہے امریکہ اور عالمی اتحاد کی جانب سے افغانستان سے انخلاء سے قبل نہ صرف حکومت سازی کا خلاء پر کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی افغانستان میں آئند ہ کے حالات او ر عوامی مشکلات کا ادراک اور اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی نہ ہی افغانستان کو امداد دینے کی کوئی عملی تجویز اور منصوبہ بندی کی گئی ایسے میں طالبان کی حکومت آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق بن سکتی ہے طالبان حکومت کو قیام امن و استحکام امن اور ملکی مسائل عوام کو بنیادی سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے لئے عالمی تعاون درکار ہونا فطری امر ہے اس حوالے سے اقوام متحدہ اور پوری ممالک اگر دلچسپی نہ لیں تو خلیجی تعاون کونسل کے ممالک او آئی سی کے علاوہ پاکستان ‘ روس ‘ چین ‘ ایران اور ترکی و وسطی ایشیائی ریاستوں کو کردار ادا کرنا ہو گا طالبان کے لئے بھی علاقائی ممالک تعاون اہم ہوگا جس کے ساتھ ہی افغانستان اور خطے میں استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان